Diplomacy for PeaceEducation for PeaceMultilingualNation for PeaceReligion for PeaceSpirituality for PeaceWorld for PeaceYouths for Peace

Conspiracy theories and Muslims: Rise and fall of the peoples are attached to Natural Laws applicable to all, including Muslims

Word For Peace

By Dr Waris Mazhari

“اقوام کی ترقی و خوش حالی ،فتح وشکست اورعروج و زوال کا معاملہ فطرت کے ابدی قوانین (سنن کونیہ)سے جڑا ہوا ہے۔ قوانین فطرت کے تمام اصول تمام لوگوں کے لیے یکساں اور اٹل ہیں (فاطر:43)قوم رسول ہاشمی چاہے اپنی ترکیب میں خاص ہوتاہم وہ بھی ان قوانین کی اسی طرح پابند ہے،جس طرح دنیا کی دوسری قومیں۔ اس کے لیے بھی کوئی شارٹ کٹ اور کوئی استثنا نہیں ہے

مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس سوچ کا حامل رہا ہے کہ مسلمانوں کی تہذیبی وسیاسی پسماندگی میں بنیادی طور پر مغربی دنیا کی طرف سے کی جانے والی سازشوں کو دخل ہے۔دراصل یہ مغربی اقوام ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو ادھر کئی سو سالوں سے سازشوں کے جال میں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ پوری قوم جیسے بے دست و پا ہوکر رہ گئی ہے۔مسلمانوں کے تمام منصوبے اس لیے شکست و ریخت کا شکار اورتمام فکری وعملی تگ و دو اس لیے ناکامیوں پر منتج ہوتی رہی ہے کہ ا سلام دشمن طاقتوں کا خفیہ ہاتھ اس میں اپنا کام کرتا رہا ہے۔ عربی اور اردو کی دینی وسیاسی صحافت سازش اغیار کے بڑے بڑے چمکدار عنوانات سے بھری نظر آتی ہے۔ نام نہاد مفکرین اور قلم کاروں کی ایک بڑی تعداد اپنی تفکیر کی ہر تان اغیار کی سازش پر توڑنے کی عادی ہوچکی ہے۔عالم عرب کے مشہور اسلامی مفکر انور الجندی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’:مسلمانوں کی نشأۃ ثانیہ اس وقت شروع ہوگی جب وہ مغرب کی سازشوں کو صحیح طور پر سمجھ لیں گے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اب تک سازش کو سمجھنے کے ہی مرحلے میں ہے؟اگر صدیوں میں ہم اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کو بھی اب تک نہیں سمجھ پائے تو پھر عمل اور منصوبہ بندی کا وقت کب آئے گا؟حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا نظریہ ہماری فکری بحران کی علامت ہے۔ مشہور الجزائری مفکر مالک بن نبی اپنی کتاب مشکلۃ الثقافۃ میں لکھتے ہیں :

 وسنظل نکرر ونلح فی تکرارنا ان ازمۃ العالم الاسلامی منذ زمن طویل لم تکن ازمۃ فی الوسائل وانما فی الافکار ومالم یدرک ہذا العالم تلک الحقیقۃ ادراکا واضحافسیظل داء الشبیبۃ العربیۃ الاسلامیۃعضالا بسب تخلفہا عن رکب العالم المتقدم

’’ہم اصرار اور تکرار کے ساتھ یہ بات کہتے رہیں گے کہ طویل مدت سے عالم اسلام  کو جس بحران کا سامنا ہے اس کا تعلق وسائل سے نہیں بلکہ افکار سے ہے۔جب تک دنیا اس حقیقت کوبخوبی نہ سمجھ لے اس وقت تک  عرب اسلامی کو لاحق ہونے والا مرض، ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں اس کے بہت پیچھے رہ جانے کی بنا پر لاعلاج بنا رہے گا‘‘۔( مشکلۃ الثقافۃ ،ص۱۷۷)

 مسلمانوں کے ساتھ تاریخ میں جو کچھ پیش آیا اور آج آرہا ہے وہ ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔دشمنوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اور کوششوں کی حقیقت آئنے کی طرح بالکل واضح ہے۔ان کا کوئی پہلومخفی نہیں ہے۔ایک لفظ میں یہ ہماری کمزوریوں کی قیمت ہے جنہیں ہم اخلاقی دہائیوں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالاں کہ خود ہمار ی اخلاقی حالت نہایت افسوس ناک ہے اور اس کا احساس ہم میں سے ہر چھوٹے بڑے کو ہے جس کا اظہار بھی زبان وقلم سے تسلسل کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔

سازش کا نظریہ سراسر غیر اسلامی ہے۔اگر اسے حقیقت تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اب مسلمانوں کی اجتماعی تقدیر خود مسلمانوں کے اپنے ہاتھوں میں نہیں بلکہ ان کے دشمنوں کے ہاتھوں میں ہے۔اسے وہ خود نہیں بلکہ اس کے دشمن لکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد قرآن کی اس آیت: ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر ما بانفسہم(الرعد:11) کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے ،جس کا ترجمہ حالی نے اس شعر میں کردیا ہے کہ:

 خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

 نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

یہ بات فی نفسہ بالکل غلط نہیں ہے کہ مسلمان مغربی اقوام کی سازشوں کا شکار رہے ہیں ،لیکن اسے جس تعمیم اور مبالغے کے ساتھ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ انتہائی لغو اور پسماندہ فکری کا سب سے بڑا مظہرہے۔اسلام کی چودہ سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں۔ امت کی اجتماعی زندگی میں مختلف نشیب و فراز آئے۔خاص طو ر پر 1258 میں تاتاریوں کے ذریعے عالم اسلام کی تباہی پوری اسلامی تاریخ کا سب سے الم ناک واقعہ ہے۔جس کے بارے میں معاصر مؤرخ ابن اثیر نے لکھاہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے اسلام روے زمین سے مٹ جائے گا۔یہ مقولہ مشہور ہوگیا تھا کہ اگرتم سے کہا جائے کہ تاتار شکست کھا گئے تو تم یقین نہ کرو(ان قیل لکم ان التتار قد انھزموا فلاتوقنوا)اس آشوب ناک صورت حال میں بھی مسلمانوں میں اس طرح کا کوئی نظریہ نہیں پھیل سکا۔ مجموعی طور پر مسلمانوں میں یہ احساس جاں گزیں رہا کہ جو کچھ ہوا ہے ،قرآن کی آیت : ما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم’’ تم کو جو مصیبت پیش آئی وہ سب تمہار اپنا کیا دھر ارہے‘‘۔ (الشوری :30) کے مطابق ہے۔ وہ خود ان کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ اس لیے زیادہ عرصہ گزرنے نہیں پایا کہ عسکری میدان میں شکست کھانے والی مسلم قوم نے اپنی تعمیر کرکے فکر اور تہذیب کے میان میں اس سے بازی جیت لی۔ لیکن موجودہ د ور میں ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

اس نظریے کے مسلمانوں میں پھیلنے کے مختلف اسباب رہے ہیں۔ ایک بنیادی سبب ہمارے علمی و فکری حلقوں میں تنقید ذات(self-criticism) یا خود احتسابی سے آنکھیں چڑانے کا رویہ ہے۔دوسرا اہم سبب بیسویں صدی میں دفاع ملت اور احیائے اسلام کے عنوان سے اٹھنے والی تحریکوں اور جماعتوں کی اپنے بنیادی مقاصد میں ناکامی ہے،جسے انہوں نے پوری مسلم قوم کا اجتماعی نشانہ قرار دیا تھا۔حالاں کہ یہ تحریکیں اپنے مقامی مسائل:حقوق انسانی کی پامالی ،آزادی فکر قدغن ، حکم رانوں کے ذریعے قومی ثروت کا بے جا استعمال وغیرہ کی پیدا وار تھیں۔ مسلم دشمن طاقتوں کے مقابلے میں ہونے والی ناکامی اور فکری پسپائی نے ان کو مایوسی اور ردعمل کی نفسیات کا اسیر بناکر رکھ دیا۔جذباتیت اس نفسیات کی اسا س ٹھہری اورخوف ،شک و تذبذب اور تو ہمات ا س کے عناصر۔

یہ نظریہ پورے طور پر قرآن اور اسلامی فلسفہ اجتماعیات کے خلاف ہے۔یہ حقیقت میں اس شکست خوردہ نفسیات کی غماز ہے کہ : فکر تعمیر نہیں ،ماتم تخریب سہی!

 قرآن میں دشمنوں کی طرف سے مسلمانوں کے حق میں کی جانے والی سازش (خفیہ تدبیر)کا ذکر آیا ہے اور اس کے لیے ’’کید ‘‘اور’’ مکر‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ متعلقہ آیتیں یہ ہیں : ومکروا ومکر اللہ واللہ خیر الماکرین’’انہوں (دشمنوں ) نے مکر کیا اور اللہ نے بھی مکر کیا اور اللہ تعالی بہتر طور پر مکر کرنے والا ہے‘‘۔( آل عمران:54)۔ و  یمکرون ویمکر اللہ واللہ خیر الماکرین ’’وہ لوگ خفیہ تدبیر کر رہے تھے اور میں بھی خفیہ تدبیرکررہاتھا‘‘۔(الانفال30:)۔ انہم یکیدون کیدا واکید کیدا ’’ یہ لو گ چالیں چل رہے ہیں اور میں بھی ایک چال چل رہاہوں ‘‘(الطارق:16) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سازش یا خفیہ اقدام دشمنوں کی طرف سے کیا جانے والا ایک متوقع مگر غیر فطری عمل ہے۔اس لیے حقیقت میں وہ ایک مستقل عمل کا بدل نہیں بن سکتا کہ جس سے میدان پلٹ دیا جائے۔ حریف کو آخری طور پر شکست دے کر اس کی تقدیر کا فیصلہ کردیا جائے اور کسی قوم کو صر ف اس بنیاد پر سرخروئی حاصل ہوجائے۔ دوسری سب سے اہم بات جو ان آیات سے وا ضح طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دشمنوں کی سازش کو ناکا م بنانے کا فطری طور پر نظام قائم کررکھا ہے۔سازش کی بنیاد پرکوئی جماعت یا قوم اسلام یا اہل اسلام کو دبا یا مٹا نہیں سکتی۔اس لیے مختلف احادیث میں جہاں اسلام کے ضعف اور مسلمانوں کے ذلت و خواری کا بحیثیت پیش گوئی ذکرکیا گیا ہے،وہاں اس کا ذمہ دار خود مسلمانوں کو ہی ٹھہرایا گیا ہے۔مثلا مشہور حدیث ہے :یوشک الأمم أن تداعی علیکم کما تداعی الأکلۃ إلی قصعتہا، فقال قائل: ومن قلۃ نحن یومئذ؟ قال: بل أنتم یومئذ کثیر؛ ولکنکم غثاء کغثاء السیل ولینزعن اللہ من صدور عدوکم المہابۃ منکم ولیقذفن اللہ في قلوکم الوہن۔ فقال قائل: یا رسول اللہ وما الوہن؟ قال: حب الدنیا وکراہیۃ الموت۔

’’قریب ہے کہ تم پر قومیں اس طر ح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے والے کھانے کے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابی نے پوچھا ،یا رسول اللہ کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی؟آپ نے جواب دیا :نہیں ،بلکہ تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی۔ مگر تمہاری مثال اس وقت سیلاب کے جھاگ کی سی ہوگی۔اللہ تعالی تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہار ے دلوں میں ’’وہن‘‘ ڈال دے گا۔صحابہ نے پوچھا :وہن کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا:دنیا کی محبت اور موت کو ناپسند ٹھہرانا‘‘(بو داؤد حدیث نمبر:۴۲۹۷)

یہ تصور کہ دوسری اقوام کی سازشوں نے مسلمانوں کو بے دست و پا کردیا ہے اور ان کی تقدیر پر گویا ناکامی کی مہر ثبت کردی ہے؛فراریت اوربے عملی کا ایک نہایت بھونڈا تصور ہے۔اس وقت ہم جس قوم کی سازش کا رونا رورہے ہیں ،ہمارے ہر چھوٹے بڑ ے کی خواہش ہے کہ ہم اس کے درمیان ،اس کے ملک میں رہنے کا موقع میسر آجائے اور ہم پر عیش و عشرت کے دروازے کھل جائیں۔ راقم الحروف کی ایسے بہت سے لوگوں سے ملاقات ہے ،ہندوستان میں بھی اور ہندوستان سے باہر بعض مغربی ملکوں میں بھی،جوشدید طور پر مغرب سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں لیکن اتنی ہی شدت کے ساتھ وہ اس بات کے متمنی نظر آتے ہیں کہ کاش انہیں یا ان کی کسی اولاد کو امریکہ یا برطانیہ وغیرہ کا گرین کارڈ حاصل ہوجائے۔ اس میں شاید ہی مذہبی اور غیر مذہبی ،باریش عالم یا بے ریش دانش ورطبقے کا کوئی اسثنا ہو۔یہ ایک کھلا ہوا تضاد ہے۔مسلم حکومتیں اپنی شخصی اور آمرانہ حکومتوں کی بقا کے لیے مغربی حکومتوں کی سرپرستی کے لیے بے تاب رہتی ہیں۔ اگر سازش ہورہی ہے تو ہم تو خود اس سازش کے داعی ہیں۔ یعنی آ بیل مجھے مار والی صورت حال ہے۔

 یہاں اس صورت حال کو ایک اور زاویہ نگاہ سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔رسول اللہ کی ایک حدیث ہے:

لاتقل تعس الشیطان فانک اذا قلت ذالک تعاظم حتی یکون مثل البیت ویقول بقوتی ولکن قل بسم اللہ فانک اذا قلت ذلک تصاغر حتی یکون مثل الذباب

 ’’تم یہ نہ کہو کہ شیطان کا برا ہو۔یوں کہ یہ سن کر شیطان پھولا نہیں سماتا اور تکبر میں کہنے لگتا ہے کہ میں نے اپنی طاقت سے بندے کو زیر کرلیا۔بلکہ یوں کہا کرو کہ بسم اللہ اس سے شیطان مکھی کی طرح چھوٹا ہوجاتا ہے‘‘(ابودائود حدیث نمبر:۴۹۸۲)۔

علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ:’’ ایسا کہنے سے شیطان خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ بنی آدم کو معلوم ہوگیا کہ میں نے اس کو نقصان پہنچایا ہے اور اس طرح کے جملے اسے اور بھی شیر بنا دیتے ہیں۔ اور ذر ا بھی فائدہ نہیں پہنچاتے‘‘۔ مو جودہ زمانے میں یہی ہوا ہے۔مسلمانوں نے دوسروں کے مقابلے میں اپنی بے چارگی (victimhood )،کمزوری اور خطرہ زدگی (vulnerability)کا نالہ وشیون کے ساتھ اظہار مسلسل کرنا شروع کیا کہ دوسروں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ قوم کے اندر واقعی مقابلے کی اب کوئی قوت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اس لیے وہ صرف جھنجلانے، رونے اور چیخنے میں یقین رکھتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں افراد اور اقوام کی ترقی و خوش حالی ،فتح وشکست اورعروج و زوال کا معاملہ فطرت کے ابدی قوانین (سنن کونیہ)سے جڑا ہوا ہے۔ قوانین فطرت کے تمام اصول تمام لوگوں کے لیے یکساں اور اٹل ہیں (فاطر:43)قوم رسول ہاشمی چاہے اپنی ترکیب میں خاص ہوتاہم وہ بھی ان قوانین کی اسی طرح پابند ہے،جس طرح دنیا کی دوسری قومیں۔ اس کے لیے بھی کوئی شارٹ کٹ اور کوئی استثنا نہیں ہے۔

بحر حال امت مسلمہ کے فکری بحران میں اس سازش کے نظریے کو بھی کافی دخل ہے۔امت کے اربا ب حل وعقد کا طبقہ بھی اس سے خالی نہیں ہے۔اس نظریاتی مفروضے کے تناظر میں غور کیا جاسکتا ہے کہ امت فکری سطح پر کس

 حد تک زوال آمادہ ہے۔جب تک امت کا فکری بحران ختم نہ ہو اس وقت تک زوال وپس ماندگی سے عروج وترقی کی طرف امت مسلمہ کا ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

Source: http://mazameen.com/perspective/%d8%a7%d8%ba%db%8c%d8%a7%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d8%b3%d8%a7%d8%b2%d8%b4-%da%a9%d8%a7-%d9%86%d8%b8%d8%b1%db%8c%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85%d8%a7%d9%86.html

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »