Nation for PeaceReligion for PeaceUrduWorld for Peace

کشمیر کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری Communal Harmony & Religious Tolerance in J&K

Communal Harmony

پروفیسراخترالواسع

فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کشمیر کی صدیوں پرانی روایت ہے جسے عمومی طور پر کشمیریت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کشمیر کی خصوصیت مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی ہے۔ کشمیری جنت نظیر کشمیر پر فخر کرتے ہیں۔ کشمیریت، وادی کشمیر میں مشترکہ ہندو مسلم ثقافت، تہوار، زبان، کھانا پینا اور لباس وغیرہ کے مجموعے کا نام ہے اور اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ کشمیریت کی روح یہ ہے کہ مذہبوں کے تہوار بھائی چارے کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ کشمیریت جس کی حوصلہ افزائی ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ ہوتی ہے کو کشمیری سلطان زین العابدین نے ترقی دی۔ کشمیریت کی مثال ایسے بھی دی جا سکتی ہے کہ جس ’’لل دید‘‘ کو کشمیری مسلمان ’’للہ عارفہ‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں اسی کو کشمیری ہندو ’’لل ایشوری‘‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ جس شیخ نورالدین کو کشمیری مسلمان نند رشی اور شیخ العالم سے موسوم کرتے ہیں اسی کو کشمیری ہندو ’نند سنتر‘ سے یاد کرتے ہیں۔

کشمیر میں چونکہ مسلم، ہندو، سکھ اور بودھ مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور ان کی مذہبی یادگاریں اور عبادت گاہیں پائی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے یہ خطہ مذہبی رواداری کی مثال پیش کرتا ہے۔ اس میں سلطان زین العابدین کی حکمرانی کے نظریات بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں کہ جنہوں نے کشمیر کی مختلف مذہبی برادریوں کو یکساں تحفظ، اہمیت اور سرپرستی دی۔کشمیر کے وجود کی خصوصیت اس کا اندرونی ہمالیائی جغرافیہ، سخت سردی والی، آب و ہوا، معیشت اور سیاسی لحاظ سے الگ تھلگ خطہ کے طور پر ہے جو کہ اس کو ممتاز کر دیتی ہے۔ خطہ میں سیاسی انتشار اور غیرملکی حملے بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کشمیری، مذہبی اور اختلافات سے قطع نظر، یکجہتی، لچک اور حب الوطنی کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم آہنگی اور لوگوں کی بقاء ان کے ورثے کے عزم و اخلاق کو تشکیل دیتا ہے۔ کشمیری، مذہبی اور معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی مثال بھی پیش کرتے ہیں اور اس کو اپنے وجود کا بنیادی حصہ بھی مانتے ہیں۔ کشمیر، شیومت، بدھ مت، ریشیت اور تصوف سے سختی سے متاثر ہوا ہے۔ کشمیریت اس یقین کا نام ہے کہ ہر مذہب ایک ہی الہی مقصد کی طرف دعوت دیتا ہے۔

مغل بادشاہ اکبر کی دین الہی کے ہم آہنگی کے فلسفے سے بھی کشمیریت متاثر ہوئی کہ جس نے ہندو اور مسلم نظریات اور اقدار کے امتزاج پر زور دیا۔ تنازعہ کشمیر میں کشمیریت سیاست کا شکار ہوکر رہ گئی ہے اور ہر کوئی اس کو اپنے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن کشمیریت کو کشمیریوں کے سوا نہ کوئی سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی اس انداز میں اپنا سکتا ہے کہ جس انداز میں کشمیری مسلم، ہندو اور سکھ اور اس کو اپنائے ہوئے ہیں۔

ریشیت کسی بھی طرح سے فلسفہ یا نظریہ نہیں بلکہ یہ ایک طرزعمل ہے۔ یہ قول شیخ نورالدین کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جو کہ واقعتاً ریشیت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ کشمیر کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اسے تصوف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ شیخ نورالدین کہ جن کو شیخ العالم بھی کہا جاتا ہے، چودھویں صدی عیسوی کے ایک مایہ ناز صوفی بزرگ تھے جن کو ’نند رشی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیوں کہ وہ ریشیت کے علمبردار بھی تھے اور ان کے شاعرانہ کلام کو ’شیخ سُتر‘ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے سے اللہ اور انسان کے درمیان کے تعلق کے حوالے سے باتیں کی ہے۔ انہوں نے اپنی ماحولیات پر بھی شاعری کے ذریعے سے قلم اٹھایا اور جنگلات کے تحفظ کی طرف بھی رہنمائی کی۔ ان کا ماننا تھا کہ جنگلات ہی زندگی کی روح ہے اور ان کی حفاظت ضروری ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے سے انسانی زندگی کے ہر شعبے کو اجاگر کیا۔ ان کی شاعری معیشت کے اقدار اور ماحولیات کے طلسمات کو اجاگر کرنے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے لوگوں کو اپنی شاعری کے ذریعے سے مدعو کرتے ہیں اور خود دنیاوی اغراض سے بے پرواہ۔ انہوں نے اپنی زندگی کا خاصا وقت غار میں گزارا جو کہ فطرت اور انسان کی اصلیت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ کشمیری عوام شیخ نورالدین کے مرحوم منت ہیں کہ جنہوں نے ثقافت اور ہنر کو اہمیت دلانے میں اپنی شاعری جو کہ ریشیت کی علمبردار ہے، عوام الناس کے اندر ایک ولولہ پیدا کیا۔ شیخ نورالدین کے نزدیک انسانی زندگی کی عزت اور عظمت ہی ریشیت اور صوفیت کی بلندی ہے شیخ العالم بنیادی طور پر استحصال کے خلاف ہیں۔ وہ استحصال انسانی زندگی کی ہو، مال کی ہو یا پھر ماحول کی۔ اور حد سے تجاوز کرنے والوں کو للکارا۔ ان کا ماننا تھا کہ یہی وجوہات بنتی ہیں اور سماج کے اندر اخلاقیات کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے اندر اشارے اور کنائے سے اور مثالیں دے کر ہوشیار کیا مظاہر فطرت (Nature) کو نہ بگاڑا جائے۔

انہوں نےاپنی شاعری کا استعمال لوگوں کو دینی بیداری اور ماحول کی حفاظت کے لئے کیا اور اسے بیداری کا سامان بنایا۔ ان کی شاعری کے اندر توحید، رسالت، معاد اور انسانی فطرت کو خاصی جگہ ملی ہے۔ انہوں نے اخلاقیات، عدل، مساوات اور ماحول کی حفاظت پر زیادہ زور دیا ہے۔ ان کی شاعری میں سماج، مذہب، تاریخ، ثقافت، تمدن، ماحولیات اور اخلاقیات کی بہتری کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اخلاقیات کی طرف لوگوں کی نشاندہی کی بلکہ خود اخلاقیات کا نمونہ بن کے زندگی گزاری۔ وہ اسلامی اخلاقیات اور قدرتی اخلاقیات میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ العالم کی زندگی کے روشن افکار پر نظر رکھنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ شیخ العالم نے ریشیت اور صوفیت کو مظاہر فطرت کے ساتھ جوڑ دیا اور اسے قانونِ فطرت بنایا جس کی کہ مذہب اسلام رہنمائی کرتا ہے۔قلم کاروں نے لکھا ہے کہ کشمیر زمانہ قدیم سے ہی ایک محفوظ جگہ رہی ہے۔ عبادت گزاروں کے لئے، ذکر کرنے والوں کے لئے، مراقبہ کرنے والوں کے لئے، صوفی بزرگوں کے لئے، ریشیوں کے لئے، خدا دوست انسانوں کے لئے۔ یہ بزرگ اور خدا دوست انسان مختلف ادوار میں مختلف مذہبوں کے ماننے والوں میں پائے جاتے ہیں جیسے کہ ہندو مت، بدھ مت، کشمیری شیو مت اور اسلام۔ اسلام کشمیرمیں وسط ایشیاء سے آئے ہوئے خدا دوست بزرگوں کے ذریعے سے ہی پھیلا جن کو کہ تصوف میں اعلا درجہ حاصل تھا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ کشمیر میںجب ’چک‘ اور ’شاہ میری‘ حکومتیں تھیں تب حکمرانوں نے صوفی بزرگوں کو بڑے بڑے عہدوں سے نوازہ اور برے بڑے انعامات تفویض کئے۔انہی کے دور میں کشمیر میں تصوف کے چھ بڑے سلسلے عروج پر پہنچے جن میں کہ قادریہ، سہروردیہ، کبرویہ، نقشبندیہ، نوربخشیہ اور ریشیہ ہے۔ پہلے پانچ تو ایران اور ترکستان سے وارد کشمیر ہوئے تھے اور چھٹا کشمیر سے ہی پروان چڑھا تھا جس میں کہ ہندومت، بدھ مت، شیومت کی جھلکیاں، اسلامی تصوف کے اندر جذب ہوکر اور نکھر کر صاف ستھری ہوکر ابھر کر آ گئی۔ کشمیر کی روحانیت میں میر سید علی ہمدانی اور ان کے بیٹے میر محمد علی ہمدانی اور زیادہ اضافہ کرکے چار چاند لگائے اور کشمیری روحانیت کو اسلامی روحانیت سے روشناس کروایا۔

روحانیت سے بھری اسی وادی کو کشمیر کہتے ہیں کہ جس کو کشمیریت سے موسوم کیا جاتاہے۔ کشمیریت مسلم، ہندو اور سکھ اتحاد کا نام ہے کہ جہاں پر مذہب تو مختلف ہیں، نظریے تو مختلف ہیں، مگر زندگی گزارنے کا طریقہ، رہن سہن، لباس، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سماجی اقدار، ثقافت اور تمدن ایک جیسا ہے اور ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں کے اندر اور ایک دوسرے کے مذہبی مسئلوں کے اندر ہر دوسرے کا دخل قابل فخر محسوس کیا جاتا ہے ناکہ قابل تردید۔گرچہ پچھلے کئی دہائیوں سے کشمیر کے حالات سیاسی طور پر بگڑے ہوئے ہیں یا یوں کہا جائے بگاڑے گئے ہیں تاہم مذہبی رواداری، بھائی چارے کی مثال آج بھی کشمیر ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں مندروں کی حفاظت ہو یا کشمیری پنڈتوں کے مکان و جائیداد کی حفاظت، کچھ چھوٹے چھوٹے بگاڑ کے باوجود کشمیری مسلمانوں نے اس کام کو بحسن خوبی انجام دیا اور آگے بھی دیتے رہیں گے اس کی پوری امید ہے۔ آج بھی اگر کسی کشمیری پنڈت کی موت واقع ہوتی ہے تو کشمیری مسلمان بھی اس کے آخری رسومات میں پوری طرح شامل رہتے ہیں۔ بھائی چارے کی ایسی مثال دنیا میں شاید ہی کسی اور جگہ ملتی ہو۔

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

CAPTCHA ImageChange Image

Back to top button
Translate »