Diplomacy for PeaceNation for PeaceUrduWorld for Peace

Indian Muslims must boycott fake news and communalist rumors, writes the Urdu daily Inquilab Editor افواہوں اور غلط اطلاعات سے بچنا ضروری

شکیل شمسی

دہلی کے خوریجی  خاص علاقے میں عید کی نماز کے بعد ایک کار تیزی سے گزری اور کئی لوگوں کو ٹکر مار تی ہوئی بھاگ نکلی۔ جس کے بعد افواہوں کا بازار گرم ہوگیا۔ مجھے جو پہلا میسیج اس سلسلے میں ملا اس میں لکھا گیا تھا کہ خوریجی خاص علاقے میں نمازیوں پر ایک شخص نے کار دوڑا دی جس سے سات یا آٹھ آدمی زخمی ہوگئے ۔ پھر خبر آئی کہ ۱۷؍ زخمی ہیں ، مگر کسی نیوز چینل پر اس خبر کا کوئی ذکر نہیں تھا ۔ مجھے لگ رہا تھا کہ دہلی میں ایسا واقعہ ہو جائے او ر کوئی نیوز چینل دکھائے نہ یہ ممکن نہیں ، لہٰذا میں نے اپنے بیورو چیف ممتاز عالم کو اس خبر کو کنفرم کرنے کے لئے کہا اور ایک مشہور نیوز چینل کے اینکر کو فون کرکے بھی بتایا کہ ایسا واقعہ ہونے کی خبر ہے ذرا وہ پتہ لگائے۔ چند ہی منٹ کے بعد نیوز اینکر اور ممتاز عالم نےبتایا کہ یہ معمولی سا واقعہ تھاجس میں دو یا تین لوگوں کو ہلکی سی چوٹ لگی ہے اور انھوں نے یہ بھی بتایا کہ نماز پڑھنے والوں پر گاڑی نہیں چڑھائی گئی بلکہ نماز پڑھ کر واپس جانے والوں کی بھیڑ میں گاڑی گھسی تھی۔ مگر اس علاقے کے کچھ جذباتی اور جوشیلے لوگ افواہوں پر یقین کرکے پوری طرح سے ماحول خرا ب کرنے کی کوششوں میں لگے تھے اور اس واقعہ کو ایک بڑی سازش کا حصہ بتا کر سرکار ی بسوں میں توڑ پھوڑ پر آمادہ تھے۔ مشتعل بھیڑ نے دو تین بسوں کو نقصان پہنچایا بھی، مگر علاقے کی پولیس نے بہت صبر وتحمل سے کام لیتے ہوئے اس واقعہ کو کسی سانحہ میں تبدیل ہونے نہیں دیا۔

پولیس نے علاقے کے سی سی ٹی وی کوفوراً ہی چھان کر کار چلانے والے لڑکے کوپہچان لیا۔ وہ کاریں چرانے والا عادی مجرم نکلا۔ شاہ رخ نام کا یہ لڑکا متعدد بار کار اور اسکوٹر چوری کرنے کے الزام میں جیل جا چکا ہے اور ڈرگس لینے کا شوقین بھی ہے۔ حادثے کے وقت وہ اپنی معشوقہ یشیکا کے ساتھ علاقے سے گزر رہا تھا کہ ا س نے پولیس کو کھڑے دیکھا اور جب پولیس نے اس کو کار روکنے کا اشارہ کیا تو وہ گھبرا کر بھاگا جس کے نتیجے میں کچھ لوگ کار کی زد میں آگئے۔اب آپ خود ہی سوچئے کہ واقعہ کیا تھا اور اس کا کیا بنا دیا گیا اور کچھ نا سمجھ افراد نے اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کس طرح کوشش کی۔ اگر گاڑی چلانے والا کوئی ہندو نوجوان ہو تا تو پھر اس کو کتنی بڑی سازش کا درجہ ملتا؟ ویسے اس قسم کا ماحول بنانے میں ان انتہاپسندوں کا بہت بڑاہاتھ ہے جو ملک کے طول و عرض میں ماحول خراب کرنے کے درپئے ہیں۔

فرقہ وارانہ ذہنیت میں اضافہ کے باعث آج لوگ عام جرائم میں بھی مذہبی منافرت کا عنصر ڈھونڈ رہے ہیں اور اس کام میں سوشل میڈیا ان کی مدد کر رہا ہے۔ادھر سیاسی مصلحتوں کے تحت بعض افراد مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میسیج بھی چل رہا ہے کہ جلدی سے اپنا آدھار کارڈ ، پاسپورٹ ، ڈرائیونگ لائسنس یا کوئی دوسرا شناختی کارڈ ضرور بنوا لیں ورنہ آ پ کو اس ملک سے باہر کیا جاسکتا ہے۔

 جہاں تک شناختی کارڈ بنوانے کی بات ہے تو اس کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ اس میں کیا شک ہے کہ ہر ہندوستانی کو اپنا آدھار کارڈ یا کوئی دوسر ا شناختی کارڈ ضرور بنوا لینا چاہیئے؟ لیکن اس طرح کی بے بنیاد باتیں پھیلانا کہ ملک کے کسی بھی کونے میں رہنے والے مسلمانوں کو باہر نکال دیا جائے گا بہت غلط ہے۔ یقینی طور پر نہ تو کوئی حکومت ایسا کرے گی او ر نہ ہی کر سکتی ہے، کیونکہ اس سے ملک میں بدامنی پھیلنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا ۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں رہنے والے بنگالی اور آسامی باشندوں کے لئے پریشانیاں پیدا ہوسکتی ہیں، لیکن دوسرے مسلمانوں کو اس بار ے میں نہ تو فکر کرنے کی ضرورت ہے نہ گھبرانے کی۔ الیکشن کے دوران ووٹ لینے کے لئے جو باتیں کہی جاتی ہیں نہ تو ان کی کوئی اہمیت ہوتی ہے نہ ان کو نافذ کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارا تو یہی مشورہ ہے کہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے ایجنٹوں کے بہکاوے میں کوئی نہ آئے اور سیاسی رقابتوں کی چکی میں پسنے سے خود کو بچائے۔ وزیر اعظم نے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا جو نیا نعرہ دیا ہے اس کو حقیقی ماننا ضروری ہے کیونکہ یہ الیکشن جیتنے کے بعد دیا گیا اور اس نعرے سے کوئی سیاسی فائدہ ان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایک بات یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ امت شاہ کو وزیر داخلہ بنائے جانے پر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، ان کو نظر انداز کرنا ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں وزارت داخلہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد کوئی بھی شخص ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا کہ جس سے ملک میں انارکی اور بدامنی پھیلے۔

8جون ، 2019، بشکریہ : انقلاب ، نئی دہل

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »