Diplomacy for PeaceUrduWorld for PeaceYouths for Peace

عمران خان کا ‘نیا پاکستان’ اور ریاست مدینہ: غلام رسول دہلوی

عمران خان کا پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کا منصوبہ اور اسکے مضمرات

 غلام رسول دہلوی

 ‏ 2 نومبر، 2018

 پاکستان کے انیسویں وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیف عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کا منصوبہ پاکستان کو بالکل اسی طرز پر ایک اسلامی ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کا ہے، جس طرز پر پیغمبر اسلام صلی علیہ سلم نے مدینہ کو ایک اسلامی ویلفیئر اسٹیٹ بنایا تھا ‏۔

 مجھے پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم سے انسپریشن (inspiration) ملتی ہے جنہوں نے مدینہ کو ایک آئیڈیل ویلفیئر اسٹیٹ بنایا، جو کہ انتہا پسند نہیں بلکہ ایک انسانیت پسند ریاست تھی۔ اسلام آباد میں کیے گئے اپنے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ “میں آپ کے سامنے وہ پاکستان رکھنا چاہتا ہوں جس کا خواب میں نے دیکھا ہے- ایک ایسی ریاست جو مدینہ میں قائم کی گئی تھی جس میں بیواؤں اور غریبوں کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا”۔

 اس طرح سابق کرکٹر اور موجودہ سیاست دان عمران خان نے ایک ایسا اسلامی ویلفیئر اسٹیٹ قائم کرنے کا اپنا ارادہ ظاہر کیا ہے جس کے رہنما اصول وہی ہونگے جنہیں پیغمبر اسلام صلی علیہ وسلم نے ایک عظیم ترین تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھنے میں استعمال کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر یہ عہد لیتا ہوں کہ‘‘میں ایک ایسا نظام قائم کروں گا جو عام لوگوں کے لئے ہوگا، اور میری حکومت کی تمام پالیسیاں کسی خاص طبقے کے لیے نہیں بلکہ عام لوگوں کے لیے ہوں گیں’’۔ انہوں نے قوم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں ایک عام زندگی بسر کروں گا۔ اب تک ہم یہی دیکھتے آئے ہیں کہ جو بھی اقتدار کی مسند پر بیٹھتا ہے اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔ لیکن یہ میرے ساتھ نہیں ہوگا۔

 توجہ طلب بات یہ ہے کہ عام انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انصاف نے اپنے مینو فیسٹو میں بھی واضح طور پر اپنا مشن پاکستان کو ایک ایسا اسلامی ویلفیئر اسٹیٹ بنانا ظاہر کیا تھا جو انسانیت نواز اور انصاف پسند اصولوں پر مبنی ہوگی جس پر میثاق مدینہ کی بنیاد تھی-جو کہ نبی صلی اللہ علیہ سلم کی ریاست میں انسانی حقوق کا ایک تحریری منشور تھا۔

 دلچسپی کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے اُس میثاق مدینہ کا حوالہ دیا ہے جس میں ایک مسلم اکثریتی ریاست میں خصوصی طور پر دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ یہ ابھی واضح نہیں ہیں کہ وہ اپنے وعدے پوری کریں گے۔ لیکن یہاں میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ عمران خان کی اس بات کا کیا مطلب ہے کہ ان کا طرز حکومت مدنی اسلام پر مبنی ہوگا۔ اور ہندو پاک کے اسلامی سکالرز کو عمران خان کے اس بیان کو کس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ خاص طور پر اس تعلق سے ہندوستان کے کچھ بڑے مفکرین اور اھل علم و دانش بڑے پرامید نظر آرہے ہیں۔ مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے پریسیڈنٹ پروفیسر اختر الواسع نے روزنامہ راسٹریہ سہارا میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے ایک اسلامی ویلفیئر اسٹیٹ قائم کرنے کے عمران خان کے عزائم کا استقبال کیا ہے اور یہ کہاں ہے ان کا یہ عزم امن و سکون اور تکثیریت پسندی کے لیے نیک نیتی اور خیر خواہی پر مبنی ہے۔ اسی طرح دلّی مائناریٹی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام کابھی حال ہی میں اردو روزنامہ انقلاب میں ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے ‘بات چیت کا آغاز کرنے پر حکومت ہند کی غیر آمادگی’ پر پاکستان کی جانب سے ‘‘ تحریک امن’’ کی حمایت کی ہے۔

 لیکن پاکستان کے خود ساختہ نظام مصطفی کے پیش نظر کہ جس کا اب تک اس ملک میں بڑے پیمانے پر استحصال کیا جا چکا ہے، متعدد سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ بڑی افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کو نظام مصطفی کی بنیاد پر ایک سلامی مملکت کی حیثیت سے قائم کیا گیا تھا، لیکن پاکستان کا آئین اور اس کے متعدد شہری قوانین میں اقلیتیوں کے حقوق کی زبردست پامالی کی گئی ہے۔ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی بات تو چھوڑیں ، وہاں تو مسلم اقلیتیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے میثاق مدینہ میں موجود بنیادی انسانی حقوق کو بھی بڑے پیمانے پر دن رات پامال کیا جاتا ہے۔ لہذا، اس صورت میں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی پاکستان میں کسی ویلفیئر اسٹیٹ کا وجود ہے؟ اور اگر عمران خان ریاست مدینہ کو ایک مسلم اکثریتی ملک کے لئے ایک معیاری نظام حکومت مانتے ہیں تو ان کی یہ کوشش پاکستان میں سرگرم عمل ان متعدد سیاسی اسلامی پارٹیوں کے تصور سے کن معنوں میں مختلف ہوگی جو تمام کے تمام اسلامی ریاست قائم کرنے کا دم بھر رہے ہیں؟

 اس سوال پر گفتگو کو آگے بڑھانے کے لیے اب ہم بالکل واضح انداز میں میثاق مدینہ کے بنیادی مقدمات کا از سر نو جائزہ لیتے ہیں۔

 امت واحدہ کا تصور:

مدینہ میں رہنے والے تمام لوگ چاہے وہ یہودی ہوں، عیسائی ہوں، مشرک ہوں ، کافر ہوں ، قبائلی ہوں، امیر ہوں، غریب ہوں ، آقا ہوں، غلام ہوں یا کوئی اور – سب ایک امت تھے۔ اس میں مکہ کے مہاجرین بھی شامل تھے مدینہ کے باشندے بھی شامل تھے، پڑوسی قبائلی لوگ بھی شامل تھے اور وہ بھی شامل تھے جو مسلمانوں کے لیے لڑتے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑتے تھے۔

 وفاداری میں استحصال کا سد باب: امیر و غریب، آقا و غلام، ادنی و اعلی، سفید و سیاہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ میثاق مدینہ میں قانون کی خلاف ورزی کا سد باب کرنے کے لیے عام شہریوں کے درمیان مشترکہ طور پر ایک اجتماعی تعاون کو یقینی بنایا گیا تھا۔ میثاق مدینہ کی اس شق کے تحت تمام شہری ایک ہی ہار کے موتی تصور کیے جاتے تھے۔

 مشترکہ دفاع:

 اس آئین کے مطابق مسلمانوں اور غیر مسلموں کو ایک دوسرے کا دفاع کرنا لازم تھا اور اصول و قوانین شہریوں اور متعدد طبقات کے نمائندوں کے باہمی مشورے کے ساتھ ہی بنائے جاتے تھے۔

 جواب دہی:

جو میثاق مدینہ کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی کرے گا وہ اس ائین کی جانب سے عطا کردہ مراعات سے محروم ہو جائے گا اور اسے اس کے نتائج بھی بھگتنے ہوں گے۔ کسی کے بھی کندھے پر کسی دوسرے کا بوجھ نہیں ہوگا۔

 تکثیریت پسندی:

 کثیر ثقافتی اور تکثیریت پسند معاشرے کے اندر اس کے تمام اجزاء کے درمیان پائے جانے والے خصوصی مذہبی ، روایتی اور ثقافتی پہلوؤں کو تسلیم کرنا۔

 یہ میثاق مدینہ کے چند اہم اجزا ہیں جنہوں نے مدینہ کو اسلامی تاریخ میں ایک مقدس ریاست بنا کر پیش کیا۔ 52 شقوں پر مشتمل اس دستاویز میں خاص طور پر مختلف مذہبی برادریوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی پر زور دیا گیا تھا۔ اور خاص طور پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ میثاق مدینہ صرف حالت جنگ کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ حالت امن کے لئے بھی تھا۔

میثاق مدینہ کے روشنی میں امت واحدہ کا تصور یہ واضح کرتا ہے مسلم اور غیر مسلم خواہ مکہ سے تعلق رکھتے ہوں یا مدینے سے- ایک ہی امت تھے۔ اس طرح میثاق مدینہ میں پیش کئے گئے اصول و قوانین نے تاریخ میں پہلی بار ایک وحدت کی صورت میں ‘‘امت’’ کو تسلیم کیا، اور انفرادی یا قبائلی زندگی کی جگہ ایک واحد امت کا تصور پیش کیا۔ اور اس امت واحدہ کی پہچان نہ تو کوئی مذہب ہے، نہ کوئی نسل ہے اور نہ ہی کوئی قبیلہ ہے۔ بلکہ امت واحدہ کے اس تصور نے نسل پرستی اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا رجحان ختم کیا۔

‘‘یہودی اپنے اخراجات کے خود ذمہ دار ہوں گے اور مسلمان بھی اپنے اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے…. یہودی اپنے مذہب پر عمل کریں گے اور مسلمان اپنے مذہب پر۔ وفاداری غداری کے خلاف تحفظ ہے….. بنو نجار، بنو حارث، بنوں سعیدہ، بنوں جشام، بنو اوس ، بنوں ثعلبہ، جفنہ، بنو شتیبہ کے یہودیوں کو وہی حقوق و مراعات حاصل تھے جو بنو اوس کے یہودیوں کو حاصل تھے۔

(حوالہ: سنن البیہقی ، حدیث نمبر 16808۔ اور مکمل میثاق مدینہ تاریخ ابن کثیر میں ملاحظہ ہو، حصہ 2، صفحہ نمبر 321، اور ابن ہشام ، حصہ 1، صفحہ 501۔)

 نتیجۃً ، مسلمانوں کے لیے ایک تکثیریت پسند معاشرے کے اندر غیر مسلموں کے ساتھ رہنے اور خاص طور پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کواپنانے کا فقہی جواز میثاق مدینہ سے ثابت ہوتا ہے۔

 ساؤتھ ایشیا میں اسلام کی تاریخ کے ماہر بربرا ڈلے مٹکالف (Barbara Daly Metcalf)نے لکھا ہے کہ متحدہ قومیت کے بانی اور ایک مشہور اسلامی اسکالر مولانا حسین احمد مدنی نے میثاق مدینہ کی بنیاد پر جمہوریت اور قومی سالمیت کی تحریک چلائی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ‘‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کے چالیسویں سال اس تحریری آئین کی بنیاد پر مدینہ کے یہودی باشندوں اور اپنے صحابہ کے درمیان ایک متحدہ محاذ قائم کیا تھا۔ جس نے انہیں ایک ساتھ لاکھڑا کر دیا تھا۔ (مولانا کی کتاب “اسلام اور متحدہ قومیت” ملاحظہ ہو)

 اب عمران خان کے اسلامی ویلفیئر اسٹیٹ کے تصور پر غور کریں۔ انہوں نے کہا ہیں کہ آج یوروپ میں ویلفیئر اسٹیٹ کا وجود ہے، لیکن انہوں نے جنگ کی چکی میں پیس رہے پاکستان کو ایک ’’ اسلامی ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ میں تبدیل کرنے کا کوئی خاکہ نہیں پیش کیا ہے۔ انہوں نے صرف اسی بات پر اکتفا کیا کہ ان کی حکومت کے رہنما اصول وہی جنہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ‘‘عظیم ترین تہذیب’’ کی بنیاد رکھنے میں استعمال کیا تھا۔ لہذا انہوں نے اپنی تقریر میں صرف میثاق مدینہ سے حاصل ہونے والے اپنے انسپیریشن کا ذکر کیا ہے۔ عمران خان نے سماء ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کہاکہ ’’اگرچہ ہماری موجودہ سوسائٹی مکمل طور سے اس کے برعکس ہے لیکن ہم پاکستان کو انہیں اصولوں پر چلائیں گے جن پر ریاست مدینہ چلا کرتی تھی”.

 لیکن اس طرح کے بڑے بڑے بیانات میں کئی مضمرات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ مثلا کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مدنی دور کے مقابلے میں مکی اسلامی اصول مزید تکشیریت پسند، امن پسند اور جامع تھے۔ تاہم، مدنی دور میں اسلامی ریاست کی ایک مختلف تصویر ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے جس میں غزوات، توہین رسالت کا قانون، یہودیوں اور عیسائیوں کا ریاست سے نکالا جانا اور ‘‘لا اکراہ فی الدین’’ جیسے قرآن کی پرامن آیات کا منسوخ کیا جانا بھی پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں تقریبا تمام نام نہاد “اسلام پسند” سیاسی پارٹیوں کا نقطہ نظر یہی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کیا عمران خان مدینہ جیسے ویلفیئر اسٹیٹ کاحقیقی ماڈل اختیار کرتے ہیں جس کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھی تھی یا پھر اس راستے پر چل پڑتے ہیں جیسے پاکستان میں انتہا پسند نظریہ سازوں نے اغواء کررکھا ہے۔

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

CAPTCHA ImageChange Image

Back to top button
Translate »