Site icon Word For Peace

تصوف کی سیاست: ہندوستانی تصوف لگاتار رو بہ زوال کیوں؟

WordForPeaec.com 

سید سرور چشتی درگاہ اجمیر شریف کے خدام یا متولیین میں سے ایک ہیں- انھوں نے حال ہی میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کی حمایت کی تھی، اور اب  وہ “صوفی اتحاد ملت تنظیم ” کے نام سے ایک نئی تنظیم کی تشکیل کر چکے ہیں، جس کا با ضابطہ اعلان حال ہی میں جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹرز کے قریب واقع ہوٹل ریویو ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا ، نئی دہلی میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کیا گیا ہے۔

:کانفرنس کے بینر میں علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر لکھا گیا تھا

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیّری

کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

اپنی تقریر کے شروع ہی میں، سید سرورچشتی کہتے ہیں کہ “درگاہوں اور خانقاہوں کے جو لوگ خاموش بیٹھے ہوئے ہیں، ہم ان کے سخت خلاف ہیں، ہمارے ہی کچھ لوگ گورنمنٹ کی گود میں جا کر بیٹھ گئے ہیں”

اس جملہ کا اشارہ دراصل “آل انڈیا صوفی سجادگان کونسل” کی طرف تھا جنہوں نے حال ہی میں ہندوستانی قومی سلامتی کے مشیر سے ملاقات کی اور انسداد شدّت پسندی پر حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔اس  پر تبصرہ  کرتے ہوئے درگاہ اجمیرشریف کے گدی نشین خادم سید سرور چشتی نے کہاکہ “ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ سجادہ شین اور صوفی حضرات حکومت کے’ایجنٹ’ نہیں ہیں اور ہماری صفوں میں کچھ  لوگ میر و جعفر ہو سکتے ہیں لیکن ہم کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے حامی نہیں ہیں”۔

اس نئی صوفی تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر سے 25 کے قریب نمایاں سجادہ نشین حضرات اس کے ساتھ ہیں جنہوں نے تنظیم  کے لانچنگ پروگرام میں شرکت بھی کی ہے۔ لیکن لانچنگ ایونٹ اور اس کے محل وقوع اور ایجنڈے پر غور کیا جائے تو اس نو مولود تنظیم کو جماعت اسلامی اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی حمایت حاصل ہے جو خود تصوف پر یقین نہیں رکھتے۔ درحقیقت جماعت اسلامی کے نظریاتی فریم ورک  سے دیکھا جائے تو صوفی عقائد اور ‘صوفیانہ’ طریق کار یاصوفیہ کی’روحانی روش’پر مولانا مودودی نے سخت تنقید کی ہے، جس کا مطالعہ ان کی کتاب “تصوف کا انقلابی تصور” میں کیا جا سکتا ہے جو اب عام طور پر غیر دستیاب ہے- اسی طرح جماعت اسلامی سے متاثر دیگر اہل قلم کی کتابیں جو جماعت اسلامی ہند کے مرکزی مکتبہ پبلشرز نے شائع کی ہیں، ان میں بھی اس قسم کے افکار و نظریات کو دیکھا جا سکتا ہے

لانچنگ ایونٹ میں سید سرور چشتی اور دیگر مقررین نے اپنے سے الگ راۓ رکھنے والے صوفی سجادگان کے  خلاف جس طنز بھرے  لہجے کا استعمال کیا ہے اس سے کئی  خدشات کو تقویت ملتی ہے۔ اگرچہ وہ یہ دعوی کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آج ہندوستانی معاشرے کے اقلیتوں ، دلتوں ، قبائلیوں اور کمزور طبقات کو دبانے کے لئے قوم پرستی کی ایک جعلی داستان رقم کی جارہی ہے، لیکن دوسری طرف وہ اپنے ہی ساتھیوں اور معاصر صوفیوں  کے خلاف بھی زہر اگل رہے ہیں جو یکسر تصوف کی روح کے منفی ہے- جو لوگ ملکی مسائل پر مختلف سوچتے ہیںیا مختلف سیاسی نظریات رکھتے ہیں، ان کا قلع قمع کرنا، یہ کہاں کا تصوف ہے؟ اس پریس کانفرنس کے انعقاد اور “صوفی اتحاد ملت” کے نام سے اس نئ اسلامی تنظیم کے قیام میں شامل ان لوگوں سے یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ کیا وہ سید سرور چشتی کی پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی حمایت سے متفق ہیں؟

صوفی متولیوں اور ‘حقیقی تصوف’ کے دعویداروں کے ان دو متحارب گروہوں کی اس پوری نئی داستان میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اب  ہندوستانی تصوف وہابیت کے نرغےمیں ہے جس کے تحت وہابی نظریہ کے حامل کچھ لوگ درپردہ اجمیر شریف سمیت کئی ممتاز خانقاہوں اور ہندوستانی درگاہوں میں گہری چالیں چھیڑ چکے ہیں۔ اس صورت حال نے ملک میں قومی سلامتی کے استحکام اور امن کے پائدار قیام کے لئے نئے چیلنجز پیدا کردیئے ہیں۔ اگرچہ ان صوفی نما وہابیوں کے بہت کم فولورز ہیں، اور ابھی بھی مرکزی دھارے سے جڑے ہوئے مسلمان ان متولیوں کی حمایت میں نہیں ہیں، لیکن سرور چشتی جیسے درگاہی خادم جس طرح سے پی ایف آئی جیسی شدّت پسند تنظیموں کی حمایت کر رہے ہیں اور جنونی طور پر مذہبی تعصب کا ماحول تیار کر رہے ہیں، وہ تشویشناک ہے۔ ملک کی نازک صورتحال کے پیش نظر جس میں نوجوانوں کو انتہا پسند اور بنیادپرست نظریات کے زیر اثر لانا آسان سا بن گیا ہے، یہ ایک پریشان کن امر اور لمحہ فکریہ ہے، خاص طور پرہندوستانی تصوف کے تناظر میں جوکہ لگاتار رو بہ زوال ہے۔

Exit mobile version
Skip to toolbar