HindiReligion for PeaceUrdu

اسلام: حقیقی روح، بنیاد پرستی اور آزاد خیالی کے درمیان

ریسرچ اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

anawazfalahi@gmail.com

اسلام حقیقی روح، بنیاد پرستی اور آزاد خیالی کے درمیانابھی چند دنوں پہلے ہی کی بات ہے آسٹریا کے مشہور شہر ویانا میں بدنام زمانہ تنظیم “داعش” سے ہمدردی رکھنے والے ایک دہشت گرد نے پانچ نہتے اور معصوم شہریوں کو ہلاک کر دیا اور دیگر ڈیڑھ درجن دوسرے عام لوگوں کو شدید طور سے زخمی کردیا۔ پچھلے دو ہفتوں میں فرانس نے بھی اس طرح کے کئی حملوں کا سامنا کیا ہے. یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب مسلمانوں نے اپنے مسلم ممالک میں ہو رہے سیاسی مظالم سے تنگ آکر خوشحال زندگی کی خواہش میں یورپ کی طرف رخت سفر باندھا تو اسی زمانے میں آسٹریا اور فرانس نے سب سے پہلے ان مہاجر مسلمانوں کا پرتپاک خیرمقدم کیاتھا۔  اسی کا نتیجہ ہے کہ آج فرانس میں 8.8 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے، جو کہ مجموعی طور پر تقریباً 57 لاکھ افراد ہوتے ہیں۔  اور اسی طرح آسٹریا میں بھی آج 7.9 فیصد مسلم رہتے ہیں اور یہ تعداد بھی 7 لاکھ کے آس پاس ہے ۔

ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ پوری دنیا میں کسی جگہ اور بالخصوص یورپ میں اگر کہیں کسی قسم کے خودکش حملے یا دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو سبھی مسلمانوں کے دل میں سب سے پہلا خیال یہ آتا ہے کہ “اے اللہ ، یہ حملہ آور کہیں کوئی مسلمان نہ نکل جائے…..”  اس لیے کہ اس وقت تک، اس مشتبہ شخص کی شناخت پوشیدہ ہوتی ہے،   لیکن جیسے ہی میڈیااور حکومت کی تصدیق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حملہ آور در حقیقت ایک مسلمان ہی ہے،  تو یورپی ممالک میں بسنے والے مختلف نسلوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اگلی دعا یہ ہوتی ہےکہ “اے اللہ، یہ کہیں کوئی پاکستانی، افغانی،  عرب یا کوئی فلسطینی نہ نکل جائے۔ ” اس سوچ کی اصل وجہ یہ ہے کہ مغرب میں بسنے والے بیشتر مسلمانوں کو صرف اپنی ذات اور اپنی قوم ونسل کی فکر لگی رہتی ہے۔ جیسے ہی انہیں پتہ چلتا ہے کہ حملہ آور انکے ملک، نسل یا قوم کا نہیں بلکہ کسی دوسری پہچان کا ہے،  تو یہی مسلمان پوری بے فکری کے ساتھ ایک بار پھر خواب غفلت میں خراٹے لینا شروع کردیتے ہیں کہ چلو ہماری جان تو بچی اور ہم پر اب اس بارے میں کوئی انگلی نہیں اٹھے گی۔

اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ آج مسلم معاشرے کی اکثریت انتہا پسند اور بنیاد پرست نظریات و اقدامات کی شدید مخالف ہے۔ اور ان میں سے 99 فیصد بظاہر ایسے ہیں جو کسی خودکش   دھماکے، حملے میں ملوث نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ ایسا کرنے کی سوچ رکھتے ہیں، بلکہ وہ ایسے کسی فعل اور نظریہ کی بھرپور مذمت بھی کرتے ہیں اور اس کو اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے خلاف مانتے ہیں۔

لیکن اس بار فرانس میں ایک چیچن مسلم کے ذریعہ توہین رسول کے نام پر ایک فرانسیسی استاد کے سر قلم کر دینے والے واقعے کے بعد ایک نئی قسم کی سوچ مسلم معاشرے میں نمودار ہوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس بار مسلمانوں کا وہ طبقہ جسے دینا میں آج آزاد خیال، روشن خیال اور ترقی پسند سمجھا جاتا ہے  ان کا نظریہ بھی  ڈھل  مل نظر  آیا  انکا ایک بڑا حصہ فرانس میں آزادی رائے کے نام پر مشہور میگزین چارلی ہبڈو سے وابستہ جن لوگوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے کبھی کارٹون بنائے تھے اور جنہیں ابھی حالیہ دنوں میں ایک استاد نے اپنے کلاس میں اسے آزادی رائے کے مثال کے طور پر اپنے شاگردوں کو دکھایا تھا، ان سب کو توہین رسالت کے جرم میں قتل کیے جانے کو ایک گروہ نے درست ٹھہرا  یا ہے اور طرح طرح کی لنگڑی لولی  دلیلوں کے ساتھ اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر کی ہے۔

جو لوگ بھی اس طرح کی دہشت گردی کے واقعات کو جائز ٹھہراتے ہیں، انھیں اس بات کا اندازہ کیوں نہیں کہ ان کا یہ برتاؤ اور انکی یہ سوچ، جو کہ حقیقت میں اسلام کی روح کی ہی مخالف نہیں بلکہ حیات رسول کے واقعات کے بھی منافی ہے، ان کی آنے والی نسلوں کے مستقبل لئے کس قدر خطرناک ثابت ہو گی اور اسلام کی کیسی خلاف حقیقت اور بری تصویر پیش کریگی۔  ہم مسلمان آج یہ اندازہ کیوں نہیں کر پا رہے ہیں کہ دنیا کی دوسری قومیں اور دوسرے مذاہب کے لوگ ہمیں کس نظر سے دیکھتے ہیں اور آج ہماری شبیہ کیا بن گئی ہے؟ ہماری پہچان تو بس اب ایک جذباتی اور پسند پر تشدد قوم کی بن کر رہ گئی ہے۔ اس لیے کہ ہم اب بھی ماضی کی دقیانوسی تعلیمات  کو جو کہ اسلام کی امن پسند ور بقا ئے باہم کا درس دینے والی تعلیمات کے خلاف ہیں، کیوں دینی تعلیمات کے نام پر بسائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہم  اپنے اندر سرایت کر چکی ان خرابیوں کا ازالہ کرتے  اور اپنے ذہن و فکر کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں دوبارہ ڈھالتے، مگر ہم ایسا نہیں کر سکے ۔ کیا ہمارا یہ رویہ ہماری آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل اور ان کے اندر صحیح اسلامی اسپرٹ کے پروان چڑھنے کی ضمانت دے سکتا ہے؟ نہیں! ہمارے خیال میں بالکل نہیں !! ہمیں آج کیا اس بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟ ہم اپنی اس منفی اور غیر اسلامی سوچ کے ساتھ تیزی سے بدلتی اور ترقی کرتی دنیا کا حصہ بن پائیں گے، اس کا بھی امکان نظر نہیں آتا اور اگر ایسا ہے  تو ہمارے اندر اس سمت میں مضبوط اور نتیجہ خیز اقدامات  کرنے کی سوچ اور فکر کب پیدا ہوگی؟ 

اس میں دو رائے نہیں کہ دنیا کے جو مسلمان لبرل اور ترقی پسند سوچ کے حامل ہیں وہ فرانس اور آسٹریا میں ہوئے حملوں یا ان جیسے دہشت گردی کے واقعات کا  نہ تو حصہ ہیں اور نہ اسکے حمایتی لیکن وہ ایسے کسی واقعے کے خلاف کھل کر اپنی آواز بلند بھی نہیں کرتے ، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی شخص لطیفے، چٹکلے یا کارٹونوں کے ذریعے سے اسلام کے خلاف کسی بھی طرح کا تبصرے کردیتا ہے توہمارے مسلم معاشرے کے جذبات بڑی جلدی مجروح ہوجاتے ہیں، لیکن جب ان کے اپنے ہی مسلم اکثریتی ممالک یا خود ہمارے اپنے ہی معاشرے میں دوسرے مذاہب کے خلاف توہین کا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے یا انکے کسی مذہبی حق کو سلب کیا جاتا ہے تو یہ ہمارا مسلم معاشرہ گاندھی جی کے تین بندروں کی مثال بن جاتا ہے،  اب نہ تو اسے کچھ دکھائی دیتا ہے، نہ سنائی دیتا اور نہ ہی وہ کچھ بولنے کی سکت رکھتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے  کہ آپ کو ایسے لوگ کہیں پر بھی کسی ایسے واقعے کے خلاف پوسٹر یا بینر لیکر احتجاج اور مظاہرہ کرتے اور اسکی مذمت کرتے  ہوئے بھی نہیں دیکھیں گے اور نہ ہی اپنے زور قلم سے مختلف اخبار اور رسائل میں اس کے خلاف لکھتے  ہوئے نظر آئیں گے۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دین اسلام کے اصل دشمن، جتنے یہ دہشت گرد ، انتہا پسند اور بنیاد پرست لوگ ہیں، آج کی تاریخ میں اس سے کہیں زیادہ  بڑا دشمن یہ آزاد خیال اور ترقی پسند مسلمانوں کا گروہ ہے۔ گرچہ انہیں معاشرے میں تعلیم یافتہ اور جدیدیت پسند  جیسے انتہائی مہذب الفاظ کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن صورت واقعہ یہ ہے کہ ان کی خاموشی نے انہیں ان خودکش حملہ آوروں کی طرح ہی ہمارے معاشرے کے لئے ایک ایسا سنگین خطرہ بنا دیا ہے ، جس کا  انداذہ خود اس گروہ کو بھی نہیں ہے۔

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

CAPTCHA ImageChange Image

Back to top button
Translate »