Urdu

برطانیہ کے 8 اسلامی مدارس ٹاپ 20 تعلیمی اداروں میں شامل

WordForPeace.com Special

سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے ملک میں موجود اسلامی مدارس کو بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ پھر ان کے دور میں مدارس پر دہشت گردی اور شدت پسندی کو فروغ دینے کا الزام عائد کرکے ان کی چھان بین شروع کی گئی تھی۔ اسلامی مدارس نے نہ صرف اس الزام کو عملاً غلط ثابت کر دیا، بلکہ اب برطانوی وزارت تعلیم نے مدارس کو اعلیٰ تعلیمی اداروں کی فہرست میں بھی داخل کر دیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق یہ ایک انتہائی حیران کن پیشرفت ہے کہ مسلم اسکالرز کی زیرنگرانی چلنے والے برطانوی مدارس کو ملک کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ برطانیہ جیسے ملک جہاں کا معیار تعلیم انتہائی بلند ہے، وہاں قائم 8 دینی مدارس کو ملک کے 20 بہترین تعلیمی اداروں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ حال ہی میں برطانوی وزارت تعلیم کی جانب سے ملک بھر کے بہترین تعلیمی اداروں کی رینکنگ جاری کی گئی۔ جس میں پہلے نمبر جس تعلیمی ادارے کو رکھا گیا، وہ ایک دینی مدرسہ ہے۔
بہترین تعلیمی اداروں میں شامل مدارس میں برطانوی شہر بلاک برن  میں واقع مدرسة التوحید الاسلامیة سرفہرست ہے۔ چودہ سے سولہ برس کے طلبہ کو تعلیم دینے والے 6500اداروں میں سے اس مدرسے کو پہلا نمبر دیدیا ہے۔ اس کے بعد برمنگھم میں واقع بچیوں کے دینی ادارے ”مدرسہ عدن“ کو شمار کیا گیا ہے۔ جبکہ تیسرے نمبر پر بھی بچیوں کا ایک مدرسہ بہترین تعلیمی ادارہ قرار پایا ہے۔ یہ ادارہ برطانوی شہر Coventry میں قائم ہے اور اس کا نام بھی ”مدرسة عن للبنات“ ہے۔ علاوہ ازیں پانچ دیگر دینی مدارس کو بھی برطانیہ کے بیس بہترین تعلیمی اداروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ان مدارس میں اے لیول کی تعلیم دی جاتی ہے۔ گزشتہ برس GCSE کے امتحانات میں بھی ان کے طلبہ و طالبات نے ریکارڈ نمبر حاصل کئے۔ اس سرکاری رپورٹ سے مسلم تنظیموں اور تعلیمی ادارے چلانے والے اسکالرز نے بہت سراہا ہے۔

برطانوی وزارت تعلیم نے اس فہرست کے حوالے سے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ بہترین تعلیمی اداروں کی فہرست جاری کرنے سے پہلے تمام اداروں کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ وہاں زیر تعلیم بچوں کی تعلیمی قابلیت، خصوصاً ریاضی، فزکس اور انگریزی کے مضامین میں مہارت کو اچھی طرح جانچا گیا۔ باریک بینی کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد یہ فہرست جاری کر دی گئی۔ برطانوی وزارت تعلیم نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل میں اسلامی مدارس سے پڑھنے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے اہل ہوں گے۔
مشہور سابق برطانوی گلوکار یوسف اسلام کے قائم کردہ دینی مدرسے کے ایک استاذ کا کہنا تھا کہ یہاں پڑھانے والے اساتذہ صرف تنخواہ کیلئے ڈیوٹی نہیں دیتے۔ ان کے کندھوں پر مسلم نسل کی تربیت کی بھاری ذمہ داری بھی عائد ہے۔ وہ اسے بخوبی نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم طلبہ کو گھروں میں جاکر بھی وقت ضائع نہ کرنے، بھرپور محنت کرنے اور اپنے ہم عمروں سے ہر میدان میں آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب اسلامی مدارس میں پڑھنے والوں کی تعلیمی کارکردگی دیگر اداروں کے بہ نسبت بہت بہتر ہے۔

ہمارے طلبہ فجر کیلئے جاگ جاتے ہیں اور رات جلدی سونے کے عادی ہیں۔ جبکہ انہیں بڑوں کا احترام، قوانین کی پاسداری سمیت جملہ اچھی صفات سے مزین کیا جاتا ہے۔
شیخ عبد السلام نے الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم چونکہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی دیتے ہیں۔ اس لئے اب مسلمانوں کا رجحان مدارس کی طرف بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اب ہمارے پاس مزید داخلوں کی گنجائش ہی نہیں۔ اس سال ستر میں صرف تیس بچوں کو ہم داخلہ دے سکے۔

اپنے بچوں کو ایک دینی مدرسے میں پڑھانے والی خاتون ساجدہ حامد کا کہنا تھا کہ برطانوی وزارت تعلیم کی مذکورہ رپورٹ نہایت اچھے موقع پر جاری ہوئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مدارس کو شدت پسندی سے منسوب کیا جاتا ہے، ایسے میں خود برطانوی حکومت نے یہ حقیقت تسلیم کی ہے کہ مدارس میں بہت اچھی تعلیم دی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق وزارت تعلیم کی جانب سے 28 مدارس کی کارکردگی کو سراہا گیا ہے۔ یہ مدارس اگرچہ ٹاپ ٹوئنٹی میں تو شامل نہیں۔ تاہم ان 6800 اسکولوں میں شامل ہیں، جن کے تعلیمی معیار کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ سارے مدارس بغیر کسی سرکاری فنڈ یا مدد کے صرف مخیر حضرات کے تعاون سے چلتے ہیں۔

دوسری جانب برطانوی مسلمانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ دینی مدارس کی تعداد بہت کم ہے۔ ان میں اضافہ کرنا چاہئے۔ اس وقت برطانیہ میں تقریباً دو ہزار مدارس ہیں۔ جبکہ پندرہ سال سے کم عمر مسلم بچوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے زائد ہے۔

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »