Nation for PeaceReligion for PeaceUrdu

موجودہ مسلم دینیات اور اسلامیان ہند: غلام رسول دہلوی

ندوہ، اشرفیہ اور دیوبند سے ایک درد مندانہ اپیل! فرسودہ نظام و نصاب تعلیم چھوڑیں، عالم عرب کی ارتقاء پذیر دینیات اختیار کریں! غلام رسول دہلوی

از- غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام

موجودہ مسلم دینیات اور اسلامیان ہند

فقہ اکیڈمی دہلی نے ۲۰ جنوری کو اردو روزناموں میں ایک بہت ہی اہم بیان جاری کیا، جس میں لکھا گیا کہ فقہ اکیڈمی تحقیقی کاموں میں ہمہ تن مصروف اور ہندوستانی مسلمانوں کے داخلی دینی معاملات بالخصوص خانگی مسائل کے تئیں کافی فکر مند ہے- خواتین کے مسائل خصوصی طور پر اکیڈمی کی توجہ کا مرکز ہیں۔ اکیڈمی نے اب تک خانگی مسائل بشمول نکاح، طلاق، اور دیگر متعلقہ مسائل پر ۸۱۰ قانونی دستاویزات شائع کی ہیں۔ علاوہ ازیں حالات حاضرہ کے مسائل مثلاً ہندو مسلم تعلقات، اسلامک بینکنگ، کورونا ویکسین پر اسلامی موقف کو اجاگر کرنے کیلئے اکیڈمی نے 60 سے زیادہ کتابیں اور رسالے شائع کئے ہیں-
واضح رہے کہ فقہ اکیڈمی کی داغ بیل صوبہ بہار سے تعلق رکھنے والے مشہور عالم دین قاضی مجاہد الاسلام صاحب (۱۹۳۶- ۲۰۰۲) نے رکھی تھی۔

مندرجہ بالا بیان میں فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا یہ اقتباس بھی درج تھا کہ عربی زبان کی معتبر فقہی کتابیں اور قانونی دستاویزات، اور اسی طرح روز مرہ کے مسائل پر فتوے اور آن لائن مواد کے ترجمے اردو, ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں میں کئے جا رہے ہیں. اس عظيم مقصد میں کامیابی کیلئے اکیڈمی فقہ اسلامی پر لکھی گئی عالم عرب کے سنی علماء اور فقہاء کی ضخیم کتابوں کا بڑے پیمانے پر ترجمہ کر رہی ہے، جن میں شیخ عبد الکریم زیدان کی تصنیفات کا ترجمہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ شیخ عبد الکریم زیدان ایک بااثر عراقی سنی فقیہ اور سابق وزیر اوقاف تھے۔ ان کا حلقہء اثر اربابِ علم و فقہ میں کافی وسیع تھا۔ سن ۲۰۱۴ عیسوی میں ان کی وفات ہوئی.

بادی النظر میں اس طرح کے کام ہندوستانی علماء کی جانب سے قابل ستائش خدمات کے طور پر دیکھے جانے چاہئیں جو ہندوستان میں سنی شرعی اداروں کی علماء عرب کے ساتھ علمی شراکت داری اور فقہی و فکری تبادلہ (knowledge sharing) کی اہمیت کی عکاسی کرتی ہیں.

تاہم، اگر اسلامیان ہند کے علماء و دانشوران اپنے مقامی مذہبی مباحث میں اس طرح کے فکری اور ذہنی تبادلے وسیع پیمانے پر اپنائیں تو ہندوستان میں موجودہ مسلم دینیاتی بیانیہ اور فقہی طرز عمل میں از سر نو خوش آئند تبدیلی آ سکتی ہے-

جہاں تک اسلامیان ہند کی بات ہے تو بہت حد تک یہاں علماء وفضلاء مدارس کی تخلیقی صلاحیت کہنہ طرز فکر پر ایستادہ نصاب اور قدامت پسند نظام تعلیم یعنی غیر ارتقا پذیر درس نظامی اور اسکے محدود مضامین اور مدارس کے محبوس ماحول کی وجہ سے متاثر ہے. اس ضمن میں یہ امر قابل افسوس ہیکہ فقہ اکیڈمی اور دیگر ادارے عالم عرب کے جس دینی بیانیہ اور جن فقہی متون و تصانیف کو فروغ دے رہے ہیں وہ بھی کچھ کم قدامت پسند نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر عراقی فقیہ شیخ عبد الکریم زیدان کے نظریات اور تصنیفات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں! موصوف کی ضخیم تصنیف “المفصل فی أحکام المرأۃ والبیت المسلم” کا ترجمہ فقہ اکیڈمی کے زیر نگرانی ہو رہا ہے. شیخ عبد الکریم زیدان عراق میں اخوان المسلمین کے سابق ناظر عام (General Observer) اور ورلڈ مسلم لیگ کے ممبر رہے ہیں۔ ان کو عالم عرب میں ایک ‘لفظیات پسند’ فقیہ یعنی Literalist Legalist کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کی مندرجہ بالا کتاب اور دیگر تصانیف جن میں “أحکام الذمیین فی دار الإسلام” قابل ذکر ہیں، جدید دور کے مسلّم عرب مفکرین اور ارتقاء پسند اسلامی محققین کی تنقید و تعریض کا شکار ہیں-

نئے عہد کا دینی و فقہی بیانیہ!

فقہ اکیڈمی کی ٹیم اس حوالے سے کافی سود مند ثابت ہوسکتی ہے اگر یہ اپنی تمام تر توجہ ‘متون پرست’ یعنی Textualist فقہی روایت کی بجائے عقلیت پسند اسلامی دانش اور ارتقائ مسلم دینیات پر مرکوز کرے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ شیخ زیدان جیسے قدامت پسند علماء کی تصانیف اور افکار کا ترجمہ کروانے کے بجائے فقہ اکیڈمی کی توجہ اور جدو جہد اور غیر معمولی علمی توانائی ان کتابوں کے ترجمے پر صرف ہوتی جنہیں عالم عرب کے دانش مند طبقہ نے سراہا ہے اور جنہیں روایت و درایت، جدید نافع اور قدیم صالح سے مسلح عربی علمی فوج نے تیار کیا ہے، جن میں مصر کے جدید اسلامی مصنف و محقق حسان حنفی، مراکش کے اسلامی فلسفی اور مشہور زمانہ کتاب “عربی عقلیت کی تنقید” کے مصنف محمد عابد الجابری, اور الجزائر کے بڑے دانشور اور عصر حاضر میں وہاں کے عظیم اسلامی مصلح اور فکری و نظریاتی قائد محمد ارکون قابل ذکر ہیں۔

اسی طرح نصر حامد ابوزید جیسے مشہور و مقبول علماء کا تعارف بھی ہندوستانی اسلامی دینیات میں ہونا چاہئے۔ نصر حامد ابوزید نے قرآن مجید کی جو تفسیر کی ہے وہ نظریہ عالمگیر یت اور آفاقیت کی رو سے بےنظیر ہے۔

مصر کے ایک اور اسلامی اسکالر محمد فتحی عثمان کا بھی تعارف و ترجمہ ہونا چاہئے جو علوم دین اور دیگر مذہبی روایات کے مابین باہمی تعاون کے داعی ہیں۔ اُن کی کتابوں کے ترجمے کو ہمارے یہاں اس کورس کا حصہ بنایا جاسکتا ہے جو دینی مدارس میں “تقابل ادیان” سے موسوم ہے۔ لیکن یہ صد حیف! ہمارے یہاں اتنا شاندار سبجیکٹ بھی “تقابل ادیان” کی جگہ “تقاتل ادیان” اور “تصادم بین المذاھب” کا ذریعہ بن گیا ہے، کیونکہ یہ ایسے مسلکی مزاج کی تشکیل کرتا ہے جس سے مختلف مذاہب اور فرقوں کے درمیان باہمی گفت و شنید اور مکالموں کے بجائے مناظرہ بازی, مختلف فرقوں میں بے محابا مجادلہ اور دوسرے مذاہب سے تکرار و حجت اور Dialogical اپروچ کی بجائے Confrontation کے طرز عمل کو فروغ ملتا ہے-

محمد فتحی کی تحریریں دوسری مذہبی کمیونیٹیز اور ان کی کتابوں کے ساتھ مکالمے کا قرآنی جائزہ پیش کرتی ہیں، لہذا یہ از حد ضروری ہے کہ بر صغیر میں مدارس کے موجودہ ماحول میں ان کا تعارف کیا جائے۔

اسى طرح علم الكلام کے موضوع پر، جس کے نام سے مدارس میں ہر شخص واقف ہے، لیکن سب سے زیادہ نظر انداز بھی اسی مضمون کو کیا جاتا ہے، جدید عالم عرب میں صف اول کے فلسفی طہ عبدالرحمان کا تعارف ہونا چاہیے۔ فلسفہء اخلاق، کلام، منطق، علم اللسان اور علم اللغۃ (Philology) پر کم از کم ان کی بنیادی تصانیف سے طلبہ کو روشناس کرانا چاہیے۔

مسلم دینیات کے ارتقائی اصول و علوم کی بنیاد غیر مربوط روایت پسندی کی تنقید و احتساب پر ہے۔ جدید عالم عرب اسی شاہراہِ تجدید پر اسلامی فکری نشوو نما میں گامزن ہیں۔ لہٰذا، ضروری ہیکہ اسکی گونج ہندوستان کے امہات المدارس بالخصوص دارلعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوة العلما اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں بھی سنائی دے، جن میں سے تقریباً ہر ایک اپنے آپ کو “ازہر ہند” کے لقب سے ملقب کرنا پسند کرتا رہا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ یہ تمام مرکزی دینی ادارے اس بڑے علمی تجدیدی کام کا بیڑا اٹھائیں تاکہ ہندوستان کے فارغین مدارس اور مستقبل کے مذہبی پیشوا اس قابل ہوسکیں کہ وہ حالات حاضرہ سے متعلق مسائل سے پر اپنے موقف کا تنقیدی جائزہ لے سکیں۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ روایت پسند دینی مدارس کے فارغین کو ابھی بھی مسلمانوں کے روز مرہ سماجی و عائلی مسائل میں فکری رہنما اور روحانی قائد کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن سردست یہ بات افسوس ناک ہے کہ فکری سطح پر وہ اتنے لائق نہیں ہوتے کہ مقامی پیچیدہ دینی و سماجی مسائل اور عالمی سطح پر مسلمانوں کو در پیش گلوبل چیلنجز کا حل پیش کرسکیں اور ان سے جوجھ رہے پریشان اور حیران ذہن جديد کے خلجان کو ایڈریس کر سکیں- یہ حقیقت آج بھی تمام تر تجدیدی کوششوں کے باوجود اپنی جگہ جوں کی توں قائم ہے ہیکہ آج کے علماء اسلامیات جدید علمی مقتضیات سے اس قدر مسلح نہیں ہیں کہ وہ تیزی سے تغیر پذیر طرز زندگی میں اسی کی رفتار اور تحرک کے ساتھ عالمی برادری کی رہنمائی کرسکیں۔

دوسری طرف یہ بات بھی در خور اعتناء رہے کہ آج کے مدارس اپنے انمول فکری میراث اور ماضی کی شاندار روایتوں اور علمی و تجدیدی فتوحات پر تو نازاں ہیں، لیکن خود ماضی کی اس حرکی روایت سے کٹ کر اپنے خود ساختہ رجعت پسندانہ نظریات کی جڑیں، جو کہ ۱۸ ویں صدی کے درس نظامی کی ایک بگڑی ہوئی ‘فرنگی محلی شکل’ اور محدود مسدود دیوبندی اور بریلوی جامد نصاب میں پیوست ہیں، ان کو وہ بغداد، نیشاپور، غرناطہ، اشبیلیہ، قرطبہ اور سمرقند و بخارا کی شاندار علمی روایتوں میں زبردستی ڈھونڈھ رہے ہیں!

نتیجہ یہ ہیکہ وہ بارہا ایسے فتوے جاری کر بیٹھتے ہیں جو عقلی اعتبار سے بے تکے اور سمجھ سے باہر ہوتے ہیں، اور جن کی وجہ سے عام مسلمانوں کو دوسروں کے سامنے روز مرہ کے معمولات میں ذلت اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کو آج بڑی تعداد میں بڑھتے ہوئے مذہبی مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے، لیکن علماء اور اسلامی فکر کے علمبردار قائدین اپنی دینیاتی فکر کی تعمیر نو کے تئیں اپنی بنیادی ذمہ داری کا احساس کرنے میں بھی بری طرح ناکام ہیں۔ ان کے رجعت پسندآنہ فیصلے اور فتوے اس رجحان کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ مسلمان ترقی پذیر خیالات اور جدید افکار کو گلے نہیں لگا سکتے۔

در حقیقت یہ اسلام کی ایک بگڑی ہوئی عالمی شبیہ بنانے میں دینی قائدین کے غیر شعوری کردار کا اشاریہ ہے اور اس کی تلافی کی سمت میں ان کی عدم توجہی اور ذہنی ناکامی کا حتمی نتیجہ بھی!

ایسے وقت میں جب کہ دنیا ما بعد جدیدیت کے عہد میں داخل ہوچکی ہے, اس بات کی سخت ضرورت ہیکہ علوم دینیہ کے ماہرین مذہب، معاشرت اور دینیات کا از سر نو جائزہ لیں۔ فقہ اکیڈمی جیسے دینی علوم کو فروغ دینے والے اداروں کو فوری طور پر اس جانب توجہ منعطف کرنا چاہیے۔

ہندوستان کی اہم دانش گاہوں خاص طور پر دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ، دار العلوم دیوبند اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور جیسی امہات المدارس کو اب ایسا ماحول فراہم کرنا چاہیے جس سے طلبہ کے اندر یہ لیاقت پیدا ہو کہ وہ جدید معرفت (New Knowledge) کی روشنی میں ماضی کی روایات کو سمجھ اور پرکھ کر عہد جدید میں اس کے تطابق کی نئی راہیں ہموار کر سکیں۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب نصاب و نظام تعلیم کو ترمیم و اصلاح کہ ذریعے اس قابل بنایا جائے کہ سائنسی اور دینی علوم میں علماء کو بہ یک وقت یک گونہ عبور حاصل ہو۔ تبھی وہ دنیا کےسامنے اپنی شاندار روایت اور علمی و کلامی نظریات کو علوم و معارف کے نئے قالب میں ڈھال سکیں.

مقالہ کے شروع میں مذکور فقہ اکیڈمی کا زمام قیادت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ہاتھوں میں ہے، جو کثرت کے ساتھ اردو اخباروں میں کالم لکھا کرتے ہیں انہیں ان علمی تجدیدی مقتضیات کا ادراک حقير راقم الحروف سے کہیں زیادہ ہے۔ فقہ اکیڈمی کی سرپرستی دارالعلوم ندوة العلما اور دیوبند کے با اثر اور قدآور مذہبی رہنماؤں نے بھی فرمائی ہوئی ہے، جن میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے مولانا سید رابع حسنی ندوی، مولانا محمد سالم قاسمی، امارت شرعیہ بہار کے مولانا سید نظام الدین، اندور کے مفتی جنید احمد فلاحی، گجرات کے مفتی احمد خان پوری اور انسٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز دہلی کے چیرمین ڈاکٹر منظور عالم جیسے اور بھی مسلم دانشوران شامل ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سب سے پہلے فقہ اکیڈمی قدیم غیر صالح، جامد اور Outdated پروجیکٹ مثلاً دور حاضر سے تعلق نہ رکھنے والی شیخ زیدان کی ضخیم تصانیف کا ترجمہ وغیرہ پر محنت و توانائی صرف کرنے کے بجائے جدید اسلامی دنیا کے دانشوران اور دینی علوم کے ماہرین جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، ان کی تصانیف کے ترجموں پر علمی توجہ اور مالی توانائی صرف کرنی چاہیے۔

Show More

Related Articles

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

CAPTCHA ImageChange Image

Back to top button
Translate »