Religion for Peace

واقعہ کربلا: تاریخی انقلابات کو شہادت حسینؑ سے انصاف اور آزادی کی تحریک ملی

مام حسین علیہ السلام نے کربلا میں اسلام کے نظام عدل و انصاف کو قیامت تک کے لئے زندہ کر دیا

غلام رسول دہلوی

لباس ہے پھٹا ہوا، غبار میں اٹا ہوا

تمام جسمِ نازنیں چھدا ہوا کٹا ہوا

یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہسوار ہے

کہ ہے ہزار قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا

یہ بلیقین حسین ہے، نبیؐ کا نورِعین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے

کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے

اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے

کہ ایک سےہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے

یہ بلیقین حسین ہے، نبیؐ کا نورِعین ہے

…………………

حفیظ جالندھری

muharramکربلا نے یہ درس دیا کہ دنیا میں بعض دائمی خدائی اصول پائے جاتے ہیں جن میں عدل و انصاف ، رحم و مروّت اور تکریم انسانیت وہ بنیادی انسانی اقدار ہیں جو ناقابل تغییرہیں اور جن کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ۔ اس لئے جب بھی ان اصولوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے مقابلے میں اللہ نے اپنا کوئی برگزیدہ اس لئے منتخب فرمایا تاکہ وہ عدل و انصاف کا قیام کرے جو رہتی دنیا تک ایک ثابت رہنما اصول کی حیثیت سے عالم انسانیت کو گائیڈ کرتا رہے۔ گذشتہ صدیوں میں کچھ افراد ہمیشہ جرأت، غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انصاف، آزادی اور ظلم و فساد کے سامنے وہ کبھی نہیں جھکے- امام حسینؑ علیه السلام ان انقلابی رہنماؤں کے سرخیل کارواں ہیں جنہوں نے عدل و انصاف اور حقیقی انسانی عظمت اور آزادی کو زندہ رکھا۔

آج انصاف پسندوں کے لئے اور عدل و انصاف کے انسانی اقدار کے پاسداروں کے لئے امام حسینؑ کی انتہائی حوصلہ بخش باتوں میں سے ایک یہ ہے جو انہوں کربلا میں دشمنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: “اگر تمہارا کوئی مذہب نہیں ہے تو تم اس دنیاوی زندگی میں کم از کم غیر جانب دار بن جاؤ”، اس لئے کہ ایک متعصب آدمی کے مقابلے میں ایک غیر جانب دار انسان زیادہ آسانی کے ساتھ اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکتا ہے۔

انقلاب کربلا کی معنویت، اس کے آفاقی پیغام اور ہمہ جہت اثرات کا ادراک کرنے کے لئے ہمیں ایک خالص دل و دماغ کا کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم اس عظیم انقلاب کا گہرا مطالعہ کریں گے تو ہم پر یہ امر عیاں ہوگا کہ یہ انقلاب دنیا کے تمام تاریخی انقلابات سے منفرد اور بے مثال ہے ۔ پوری تاریخ انسانیت میں ایسا کوئی لیڈر کبھی نہیں پایا گیا جسے مہم کی طرف پابہ رکاب ہوتے ہی اپنی موت کی بشارت مل گئی ہو۔ لیکن امام حسین بہ رضا و رغبت اپنی شہادت کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور اس کے حصول کی طرف ہر ضروری قدم اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ آپ مکہ کے باشندوں کو خطاب کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ:

“اے لوگو، اگر چہ میرے جسم کو مقام کربلا کے ارد گرد نیزوں اور تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے، مجھے اس دن کےبارے میں کوئی فکر نہیں ہے جو کہ پہلے سے ہی مقدر ہو چکا ہے ۔ خدا کو راضی کرنا ہی ہم خاندان نبوت کا مقصد حیات ہے “۔

کربلا کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے امام حسین نے اپنے پیروکاروں سے فرمایا:

“اے لوگو، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص ایک ظالم و جابر حاکم کو اللہ کےقائم کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہوا اور لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتا ہوا دیکھتا ہے لیکن الفاظ یا اقدام کے ذریعہ حالات کو بدلنے کے لئے کچھ نہیں کرتا تو پھر اسے کیفر کردار تک پہنچانا اللہ کا کام ہے ۔ کیا تم یہ نہیں دکھتے کہ معاملات کس حد تک ابتر ہو چکے ہیں ؟ کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ لوگ حق کو چھوڑرہے ہیں اور باطل بے حد و حساب پھیل رہا ہے ۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں زندگی کو شہادت حاصل کرنے کا ذریعہ مانتا ہوں۔ میں ظالموں کے درمیان زندگی کو ایک بیماری اور مصیبت سمجھتا ہوں” ۔

امام حسین کی شہادت سے نتیجتاً پورے عالم اسلام کےانصاف پسندوں نے ظالم و جابر حکمراں یزید سے خود کو علیحدہ کر لیا اور اس کے غیر اسلامی معمولات اور منصوبوں سے برأت کا اظہار کردیا ۔ ہر اس شخص نے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا تھا اہل بیت اطہار کے قاتلوں پر لعنتیں بھیجیں ۔ اس طرح حسینی انقلاب نے یزید کے غیر اسلامی عادات واطوار کو عوام کے سامنے بے نقاب کر کے وقت کے سب سے اہم تقاضے کو پورا کیا جس کی وجہ سے اموی حکومت کی مطلق العنانی اور ظلم و ستم کے تعلق سے کسی کے بھی دل میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ حسینی انقلاب نے اموی حکومت کے اس غیر اسلامی سیاسی تصور کا خاتمہ کر دیا۔

حسینی انقلاب آج کے دور میں اس بات کی ایک زندہ و تابندہ مثال ہے کہ مختلف ممالک میں مطلق العنانی، آمریت، ظلم، دہشت گردی اور نا انصافی جیسی برائیوں سے کس طرح مقابلہ کرنا چاہئے ۔اس سے ہمارے دلوں میں ایک جذبہ بیدار ہوتا ہے اورعدل وانصاف، امن وسکون، آزادی اور جمہویت حاصل کرنے کے لئے ایک اندرونی تحریک و تشویق بیدار ہوتی ہے۔ امام حسین کی ذات صرف مسلمانوں کے لئے ہی صبر و تحمل کی ایک بہترین شاہکار نہیں ہے بلکہ ان تمام لوگوں کے لئے ہے جن کے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا تعلق کس مذہب سے ہے اور نا انصافی کی ہیٔت کیا ہے ۔

اگر چہ امام حسین نے اپنی قربانی آج سے تقریباً1400 سال پہلے کربلا کے میدان میں پیش کی لیکن یہ اب بھی عدل و انصاف قائم کرنے اور سماجی نابرابری اور ناانصافی کو ختم کرنے کی ایک جیتی جاگتی آفاقی مثال ہے۔عدل و انصاف اور آزادی اور سماجی برابری کے لئے قائم کے گئے دنیا کے تقریباً تمام اہم اور تاریخی انقلابات کو شہادت حسین سے تحریک ملی ہے ۔

بابائےقوم گاندھی جی امام حسین سے بڑے متأثر تھے ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ : “مظلوم ہوتے ہوئے بھی فتح مند ہونا میں نے امام حسین سے سیکھا ہے” ۔

بابائے قوم نے امام حسینؓ کے بارے میں یہ بھی کہا تھا کہ “میرا ایمان یہ ہے کہ اسلام کے پھیلاؤ کا انحصار مومنین کے اخلاق سے ہے نہ کے تلوار کے استعمال پر ہے، امام حسینؓ ابن علی کی قربانی اس کی ایک مثال ہے “۔

جنوبی افریقہ کے سابق صدر اور مجاہد آزادی نیلسن منڈیلا نے کہا تھا: “میں نے بیس سال جیل میں گزارے، ایک رات میں نے فیصلہ کیا کہ تمام شرائط پر دستخط کرکے رہائی پا لینی چاہیے لیکن پھر مجھے امام حسینؓ اور واقعہ کربلا یاد آگیا اور مجھے اپنے اسٹینڈ پر کھڑا رہنے کے لیے پھر سے تقویت مل گئی “۔

بھارت کے پہلے نوبل انعام یافتہ ہمارے عظیم ہندوستانی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کے مطابق امام حسین کی قربانی سے ہمیں روحانی آزادی (Spiritual Freedom) کا سبق ملتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: “حق وانصاف کو زندہ رکھنے کے لیے اسلحہ اور ہتھیار کے بجائے زندگی کی قربانی دے کر بھی حقیقی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، اس کی زندہ مثال امام حسین کی قربانی ہے “۔ اس قسم کی دائمی فتوحات صرف وہ حاصل کر سکتا ہے جس کا خدائے تعالی پر ایمان کامل ہو” ۔

ہندوستانکی مشہور و معروف ہندو شاعرہ عظیم مجاہدہ آزادی، دانشور و مدبّر خاتون اور ہندو مسلم اتحاد و یگانگی کی حامی و سماجی خدمت کار سروجنی نائیڈو کہتی ہیں : ”میں مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ وہ امام حسینؓ سے وابستہ ہیں امام حسینؓ ابن

عظیم انسان تھے اور ہر مذہب و ملت کے لوگ ان کا عزت واحترام دل سے کرتے ہیں۔

بھارت کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے کہا تھا: امام حسینؓ کی شہادت کسی ایک ملک سے منسلک نہیں بلکہ ان کی شہادت انسانیت وانصاف کی بقا اور بھائی چارے کی ایک عظیم مثال ہے۔

بھارت کے سابق صدر اور فلسفی ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کہتے ہیں کہ امام حسینؓ نے اپنی زندگی کی قربانی1400 سال پہلے دی تھی، لیکن آج بھی ان کی روح لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

یونیورسٹی آف کیمبریج میں عربک اینڈ اورینٹل اسٹڈیز کے پروفیسر ایڈورڈ جی براؤن نے ان الفاظ میں امام حسین کی تعریف کی ہے:

‘‘ کربلا ایک ایسے خونی معرکہ کی یاد دلانے والا واقعہ ہے جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو شہید کیا گیا، بھوک اور پیاس سے ستایا گیا اور جہاں ان کے عزیز و اقارب کی لاشوں سے ان کو گھیر دیا گیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک یہ واقعہ گہرے جذبات، اتھاہ غم و اندوہ اور روح کی اس رفعت و بلندی کو ابھارتا ہے کہ جس کے سامنے تمام دکھ درد ، خطرات اور یہاں تک کہ موت بھی ایک ذرۂ ناتواں کی مانند لگتی ہے’’۔

[اے لٹریری ہسٹری آف پرسیا, لندن، 1919، صفحہ. 227]

امام حسین کی زندگی کسی ایک خاص طبقے کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے، امام حسین نے اپنی شہادت دیکر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ظلم کے آگے کبھی جھکنا نہیں ہے بلکہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی ہے خواہ اس کے لیے اپنی جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ کربلا کی قربانی سے دنیا کے تمام مظلوموں کو آواز حق و انصاف بلند کرنے کا حوصلہ ملا، محکوموں کو اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا درس ملا، ظلم و جبر اور ناانصافی پر مبنی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ ملا، اور اس طرح امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں اسلام کے نظام عدل و انصاف کو قیامت تک کے لئے زندہ کر دیا۔ جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے

کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین

چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسین

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

CAPTCHA ImageChange Image

Back to top button
Translate »