Diplomacy for PeaceWorld for Peace

پہلی بار ایک فیملی کیلئے دبئی سے آئے طیارے نے گوہاٹی سے دبئی کیلئے بھری اڑان

مشہور ہندوستانی مسلم تاجر مشتاق انفر مع اہل و عیال پہونچے دبئی ، بیٹے نے والد کا ادا کیا شکریہ

نئی دہلی/گوہاٹی
آج بات ایک ایسے این آر آئی مسلم تاجر کی جنہوں نے آسام کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔جو آسام جمعیۃ علماء کے صدر بھی ہیں اور ان ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کے محافظ ہیں جن پر این آر سی کےدوران خطرات کے بادل منڈرا رہتے تھے ، لیکن انہوں نے مولانا سید ارشد مدنی کے حکم سے پرائمری سطح سے لے کر سپریم کورٹ تک ان کے مقدموں کی پیروی کی ، اور ہر موڑ پر ان کیلئے انصاف کی جنگ لڑے۔ سماجی میدان میں ان کی خدمات کے قائل ہر خاص و عام ہیں۔  آسام جمعیۃ علماء کے صدر مشتاق انفر جو پیشے سےایک بین الاقوامی شہرت یافتہ این آر آئی تاجر ہیں، انہوںنے اپنے بچوں کی گذارش پر پہلی بار دبئی کیلئے گوہاٹی ایئر پورٹ پر چارٹرڈ پلین کاانتظام کیا جو دبئی سے آیا اور ان کے اہل خانہ کو لے کر دبئی روانہ ہوا۔ آسام کی تاریخ میںایسا پہلی بارہوا ہے جب کوئی پرائیویٹ جیٹ دبئی سے آیا ہو اور کسی ایک فیملی کو لے کر دبئ کیلئے روانہ ہوگیا ہو، جس نے یہ دوری 5گھنٹہ 30منٹ میں طے کی ۔ مشتاق انفر پیشے سے ملٹی نیشنل پرفیوم کا بزنس چلاتے ہیں ،ساتھ ہی دنیائے عرب و عجم میں عود کے ایک عظیم تاجر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ چند ماہ قبل وہ اپنی والدہ کے ساتھ وقت گذارنے کیلئے آسام تشریف لائے تھے، لیکن جیسے ہی بھارت میں لاک ڈاؤن ہوا اور فلائٹ ملتوی ہوئیں تو انہوںنے سوچا کی زیادہ دن تک تجارت کو چھوڑا نہیں جا سکتا ہے اس لئے انہیں اپنی فیملی ، بچوں اور پوتوں کیساتھ دبئی کا سفر کرنے کیلئے پرائیویٹ جیٹ کی ضرورت پڑی ، جس کا کرایہ کل 55لاکھ روپیہ تھا۔
مشتاق انفرکی پرفیوم کمپنی عود الانفر 1950میں ان کے والد حاجی انفر علی نے قائم کی تھی۔ آج اس کمپنی کے اپنے شو روم تمام جی سی سی ممالک یو اے ای ، کویت ، سعودی ، عمان وغیرہ میں موجودہ ہیں۔ 32سے زائد ممالک میں ان کا ڈسٹری بیوشن ہونے کیساتھ ساتھ دبئی میں اس کا صدر دفتر اور اپنی ذاتی فیکٹری بھی ہے۔ مشتاق انفر کے بیٹے نے سوشل میڈیا کے ذریعہ سے اپنے والد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے والد کے شکر گذار ہیں کہ انہوںنے ہماری درخواست پر توجہ دی اور ہمیں پرائیویٹ جیٹ کے ذریعہ سے دبئی لے کر گئے۔ انہوںنے کہاکہ پرائیویٹ جیٹ شوق میں نہیں بلکہ مجبوری میں لیا گیا فیصلہ تھا، کیونکہ دبئی میں کام کی کافی تاخیر ہورہی تھی اور بھارت سے دبئی فلائٹس لاک ڈائون کی وجہ سے ملتوی تھیں ،اس لئے اس سخت فیصلے کو لینا پڑا۔ انہوںنے کہاکہ ہم اپنے والد اور دادا کے راستے پر چل کرکے صرف انسانوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ ہمارا کوئی دوسرا مشن نہیں ہے اور یہ خدمت صرف انسانی بنیادوں پر ہی ہم کررہے ہیں ،جس میں ذات اور مذہب کی کوئی قید نہیں ہے اوریہی ہمارے رسول کی سیر ت ہے اور اسی پر ہمارے والد ہماری تربیت کررہے ہیں ۔
Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

CAPTCHA ImageChange Image

Back to top button
Translate »