Site icon Word For Peace

کیا قرآن و سنت میں گستاخ رسول کی سزا قتل ہے ؟

ایک امریکی قادیانی نسیم ‌ احمد کو مبینہ طور پر مجدد اور مسیح ہونے کا دعویٰ کرنے کے نتیجے میں دن دہاڑے پاکستانی عدالت میں قتل کردیا گیا۔۔ ہندوپاک کے بیشتر مسلمان جو مدعیان نبوت اور گستاخان رسول علیہ السّلام کو واجب القتل قرار دیتے ہیں نے اس پرتشدد واقعہ کو بطور جشن منایا۔ اس حادثہ کے بعد غازی خالد متعدد اسلامی سوشل میڈیا گروپس پر ٹرینڈ کر رہا ہے خصوصاً اردو حلقے میں تو لوگوں نے اپنے فیسبوک پر اسی کی ڈی۔پی۔ لگالی ۔ سوشل میڈیا کے ایک بڑے طبقے نے گستاخ رسول کے قاتل کو خوب ستائش و تعریف سے نوازا حتی کہ بعض نے تو اسے حقیقی ارطغرل غازی کا ٹائٹل تک دے ڈالا۔ سوشل میڈیا پر مسلم کمیونٹی میں ایک ایسا ماحولیاتی نظام وجود پذیر ہوگیا کہ جو کوئ کسی گستاخ رسول کو قتل کرے اسے غازی کے طمغے سے نوازدیا جاتا ہے ۔ “گستاخ رسول کی سزا سر تن سے جدا ” جیسے اردو زبان کے نعروں نے اسلامی سوشل میڈیا گروپس کے نوجوانوں کے اذہان کو متاثر کردیا۔

ہندوپاک کے اکثر بریلوی حضرات سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پیر و شہید کا درجہ دیتے ہیں اور اس کی قبر زیارتگاہ عوام اور ہزاروں لوگوں کے لیے مرکز عقیدت بن چکی ہے۔ اس عقیدت و احترام کا سبب بنیاد پرست اسلامی عقیدہ نبوت ہے جو کسی بھی مدعی نبوت اور گستاخ رسول کے قتل کے وجوب کی تاکید کرتا ہے
ہندوپاک کے اس غلبہ یافتہ اسلامی فقہ میں ایسے قتل قانونی طور پر جائز ہیں ۔ یہی دینی ہمدردی عامۃ المسلمین کے غضبناک ہونے کی وجہ بنتی ہے جیسا کہ بنگلور کے ایک حالیہ واقعہ اس پر شاہد ہے۔

وہ یقینی طور پر جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں توہین رسالت کی سزا پر کوئ صراحت نہیں لیکن اکثر مرتکب توہین رسالت کے قتل کے جواز میں کچھ حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔اور جب سوال ناموس رسول کا ہو تو عامۃ المسلمین حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔
لیکن خوش قسمتی سے بہت سارے مسلمان متبادل مذہبی تشریح بھی سامنے لائے ہیں اور ان کی دلیل ہے کہ حضور صلی االلہ علیہ وسلم نے اس قسم کے تشدد کو نارواں قرار دیا ہے ۔ وہ مختلف واقعات جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوئ اور آپ نے گستاخی کرنے والوں کو معاف فرمادیا اس پر شہادت ہیں ۔ تاہم ایسی تشریحات و تخیلات محض سوشل میڈیا تک محدود ہیں در حقیقت اسلامی علماء ہی مسلمانوں کی فکرو عمل کی تشکیل دیتے ہیں۔ ان مسلمانوں کو متبادل تشریحات سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں
لا يقتل الذمي بشتم النبي صلى الله عليه وسلم ما هم عليه من الشرك أعظم”

کوئ ذمی (کافر) توہین رسالت کی وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا چونکہ ذمی جو شرک کا مرتکب ہے اور شرک توہین رسالت سے بہت بڑا گناہ ہے۔

اسی طرح علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب “الشفاء بتعریف حقوق المصطفی” میں رقمطراز ہیں۔

“فأما الذمي إذا صرح بسبه أو عرض أو استخف بقدره أو وصفه بغير الوجه الذى كفر به فلا خلاف عندنا في قتله إن لم يسلم، لأنا لم نعطه الذمة أو العهد على هذا، وهو قول عامة العلماء إلا أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا: لا يقتل، لأن ما هو عليه من الشرك أعظم ولكن يؤدب ويعزر”

امام ابو حنیفہ ،امام ثوری اور ان کے کئ تلامذہ کی یہ راے ہے کہ ذمی جو توہین رسالت کا مرتکب ہو اسے سزائے موت نہیں دی جائے گی کیونکہ شرک جس کا وہ حامل ہے توہین رسالت سے بڑا گناہ ہے البتہ اس پر تادیب و تعزیر کی جائے گی ۔

یہ تو صرف ہندوپاک میں مخصوص فرقے کے علماء ہیں جو آج توہین رسالت کے قوانین کے نفاذ پر بضد ہیں ۔ عام طور پر بریلوی اور دیوبندی علماء اور دانشوران توہین رسالت کو واجب القتل جرم قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ توہین رسالت عند الاحناف واجب القتل جرم نہیں۔
مسلک حنفی میں توہین رسالت کا مرتکب اگر کوئ کافر ہےتو یہ قابل عفو جرم ہے ۔ اور یہی حکم جمہور حنفی فقہاء کا تصدیق شدہ قول ہے خصوصاً امام ابو حنیفہ کے تلامذہ مثلاً قاضی ابو یوسف (کتاب الخراج) تقی الدین السبکی ( السیف المسلول علی من سب الرسول) امام طحاوی ( مختصر الطحاوی) ابو بکر علاؤالدین کسانی ( بدائع الصنائع) اور دیگر دوسرے احناف ۔
ہندوپاک میں دور حاضر کے علماء اور ماہرین دینیات جو ترقی پسند نظریات کے حامل ہیں مثلا جاوید احمد غامدی، ڈاکٹر طاہرالقادری، عرفات احمد ،مولانا عمار خان ناصر وغیرہ نے بھی اپنی تحریروں کے ذریعہ واضح کیا ہے کہ قانون شریعت گستاخ رسول کے قتل کا متقاضی نہیں ہے۔

Exit mobile version
Skip to toolbar