MultilingualReligion for PeaceSpirituality for PeaceUrduWorld for Peace

In Islam, Only State Can Declare War: Fethullah Gulen, WordForPeace Specialجنگ کا اعلان صرف ریاست کر سکتی ہے

سالوں سے اسلامی معا شر ے کے طبقات یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’اسلام کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ‘‘۔  تاہم ، ترکی سمیت کئی ممالک میں بم دھماکوں کے بعد ۱۱ ستمبر کا واقعہ پیش آیا جس کے قصوروار مسلمان ہی کو ٹھرایا گیا ۔ کیا ہمارے لئے سب سے پہلے اس کی مزاحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ؟

آپ کی بات درست ہے۔ آج اسلام کی غلط ترجمانی کی جارہی ہے اس لئے مسلمانوں کو میدان میں آنے اور یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ’’ حقیقی اسلام میں دہشت گردی کا وجود نہیں ہو سکتا ہے ‘‘ کیونکہ اسلام میں کسی انسان کا قتل کرنا کفر کے برابر ہے۔ اسلام میں کسی انسان کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے حتی کہ جنگ میں بھی معصوم لوگوں کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے ۔ اس مسئلہ پر کوئی شخص فتویٰ نہیں دے سکتا۔

 کسی شخص کو خود کش بم دھما ے کی اجازت نہیں ہے اور نہ کسی کو بموں سے بندھے اپنے جسم کے ساتھ بھیڑ میں انتشار پھیلانے کی اجازت ہے ۔ ان بھیڑ وں کے مذھب سے قطع نظر بھی یہ فعل مذھبی طور پر جائز نہیں ہے ۔ حتی کہ جنگ کے میدان میں بھی جہاں توازن کو برقرار رکھنا مشکل ہو وہاں بھی اس کی اجازت نہیں ہے ۔ ہم تو کہتے ہیں ’’ان بچوں یا ان لوگوں کو بھی نقصان مت پہنچاؤ جو گرجا گھروں میں عبادت کر رہے ہوں ‘‘۔

صرف ایک بار نہیں بلکہ بار بار اس کی تاکید کی گئی ہے ، جس چیز کو ہمارے نبی محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا وہی ابو بکر نے فرمایا اور جو حضرت ابوبکر نے فرمایا وہی حضرت عمر نے فرمایا اور جو کچھ انہوں نے فرمایا بعد میں اسی چیز کو صلاح الدین ایوبی نے بھی فرمایا ۔ نیز محمد فاتح نے بھی ایساہی کہا ہے ۔ جس طرح قسطنطنیہ قیام کے لئے ابتر جگہ سے استنبول بن گیا جہاں نہ تو یونانیوں نے ارمینیوں کو کوئی نقصان پہنچایا اور نا ہی ارمینیوں نے یونانیوں کو کوئی نقصان پہنچایا ۔ نیز مسلمانوں نے بھی انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائی ۔ فتح استنبول کے بعد محب وطن محمد فاتح کی ایک بہت بڑی تصویر تھی۔  یہ اس ووقت بنائی گئی تھی جب سلطان محمد نے پادری کو بلایا تھا اور پھر اسے شہر کی باغ و ڈور دی تھی ۔ وہ انہیں احترام کے ساتھ یاد کرتے ہیں ۔ اسلام نے تو ہمیشہ سے دوسرے افکار و نظریات کو احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ لیکن ان دنوں ہر چیز میں اسلام کو غلط طورپر سمجھا جارہا ہے ۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ مسلم دنیا میں کچھ مذھبی پیشوا اور نادان مسلمانوں کے پاس کوئی دوسرا ہتھیار نہیں ہے ۔ اسلام ایک سچا دین ہے اور اسے سچا رہنا ضروری ہے ۔ ناموزوں جگہ میں اسکا استعمال بالکل غلط ہے ۔ جس طرح کسی مقصد کے حصول کے لئے مقصد کے تمام وسائل کا بھی صحیح ہونا ضروری ہے ۔ اس طرح کوئی شخص دوسرے کو قتل کرکے جنت میں نہیں جا سکتاہے۔ کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’’ میں کسی انسان کو کو قتل کروں گا اور پھر جنت میں جاؤں گا ‘‘۔ کیونکہ کوئی شخص لوگوں کا قتل کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتا ۔ کسی بھی مسلمان کا اہم مقصد اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے اور دوسرا کائنات کیلئے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اللہ قادر مطلق ہے ۔

جنگ مد مقابل سے لڑی جاتی ہے لیکن اب ہر جگہ میدان جنگ ہے ؟ اس لئے کیا وہ اس کو جنگ کے طور پر دیکھتے ہیں ؟ کیا وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس اعتبار سے ان کیلئے جنت کا دروازا کھل جائے گا ؟

اسلام کے اصول واضح اور صاف ہیں کہ افراد جنگ کا اعلان نہیں کر سکتے اور نہ تو کوئی گروپ نہ ہی کوئی تنظیم جنگ کا اعلان کر سکتی ہے ۔ جنگ کا اعلان صرف ریاست کر سکتی ہے ۔ ہم بغیر کسی صدر یا آرمی کی اجازت کے جنگ کا اعلان نہیں کر سکتے ۔ ورنہ ہر کوئی ایک دوسرے سے جنگ کرنے لگ جائے گا ۔ جنگ کی ایک شکل کچھ لٹیروں کا اردگرد جمع ہونا بھی ہے جوایک دوسرے پر ٹوٹ پڑ تے ہیں ۔ ترکی کے بارے میں غور کریں جہاں ذہین لوگ ہیں ۔ ان کے اختلافات ایک جنگ کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے ’’میں اس طرح کے گروپوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرتا ہوں ‘‘۔ کوئی کہتا ہے ’’فلاں شخص عیسائیت کی مدد کرتا ہے اور اسلام کو کمزور کرتاہے۔ اس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا جانا چاہئے اور اسے قتل کیا جانا چاہئے ‘‘۔ پھر جنگ کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ اگر ریاست جنگ کا اعلان نہیں کرتی ہے تو کوئی شخص جنگ نہیں لڑ سکتا ہے ۔ اگر کوئی اس قسم کا اعلان کرتا ہو حالانکہ وہ ایک عالم ہو تو میں اس کی مخالفت کروں گا کیونکہ یہ جنگ اسلامی روح کے خلاف ہوگی۔ اس لئے کہ اسلام میں امن اور جنگ کے قوانین مقرر ہیں ۔

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »