Religion for PeaceSpirituality for PeaceUrdu

How was the Qur’an Compiled: By Ghulam Rasool Dehlvi تدوین قرآن کے متعلق عام رجحانات اور حقائق

غلام رسول دہلوی
How was the Qur’an Compiled: By Ghulam Rasool Dehlvi تدوین قرآن کے متعلق عام رجحانات اور حقائقایک ہوشمند اور باشعور مسلمان کے اندر ہمیشہ یہ علمی جستجو موجود ہونی چاہیے کہ اس کے مذہب کا بنیادی مصدر و ماخذ یعنی قرآن حکیم کی تدوین کس طرح عمل میں آئی اور کس طرح مسلمانوں نے اسے اپنے حافظہ میں محفوظ کیا۔ اب تک میں بھی انہی عام مسلمانوں کی ہی طرح قرآن پر ایمان رکھنے والا ایک مسلمان تھا جنہیں قرآن کی تاریخی صداقت کا ادنیٰ شعور بھی نہیں ہے اور وہ قرآن پر صرف اس مذہبی تقدس کی بنا پر ایمان رکھتے ہیں جو اس کے ساتھ مربوط ہے۔ لیکن میں پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ یہ قرآن پر ایمان رکھنے کا قرآنی طریقہ نہیں ہے۔ ایک ایسی کتاب کی تو بات ہی چھوڑ دیں جو ایک آفاقی اور ہمہ گیر مذہب کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے، در اصل قرآنی نقطہ نظر سے یہ طریقہ ایک عام خبر پر بھی یقین کرنے کا بھی نہیں ہے۔ قرآن ہمیں واضح طور پر یہ حکم دیتا ہے کہ جب کوئی خبر ہمارے پاس پہنچتی ہے تو اچھی طرح سے ہمیں اس کی تحقیقی و تفتیش کرنی چاہیےتاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری نادانی کی وجہ سے کسی کو نقصان پہنچ جائے۔ (49:6)
ایک باشعور مسلمان کو ان اسباب و محرکات کا ادراک ہونا چاہیے جن کی وجہ سے قرآن ہر طرح کی تحریف، حذف و اضافہ اور نقص سے پاک ہے اور آج ہمارے سامنے مکمل طور پر محفوظ مذہبی کتاب کی شکل میں موجود ہے جو کہ الہی پیغامات کی ایک زندۂ جاوید آواز کی شکل میں باقی ہے۔ قرآن کریم کا تحفظ اسلام میں اتنا اہم رہا کہ نزول وحی کے ابتدائی مرحلے میں ہی اللہ نے ایک زبردست قرآنی آیت نازل فرما کر تحفظ قرآن کو یقینی بنا دیا: “بےشک یہ (کتاب) نصیحت ہمیں نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں” (15:9)۔ یہ قرآن کا معجزہ ہی ہے کہ کفار عرب ہر ممکن کوشش کے باوجود بھی اس کے متن میں ایک حرف کی بھی تبدیلی اور تحریف کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
تاہم مسلمانوں کو تدوین قرآن کے بارے میں عام رجحانات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ قرآن مقدس کی تدوین اور اسے کتابی شکل میں جمع کرنے کا عمل باضابطہ طور پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں انجام پذیر نہیں ہوا بلکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کے دور میں قرآن کی تدوین کی گئی اور اسے ایک کتابی شکل میں پہلی بار انہیں کے دور میں پیش کیا گیا۔ اس تعلق سے عام طور پر جو روایت مشہور ہے وہ اس طرح ہے کہ جانوروں کی ہڈیاں اور کھال جیسے مادے جن میں قرآن کی آیتیں لکھی ہوئی تھیں، وہ مختلف مقامات پر مختلف لوگوں کے پاس بکھرے پڑے تھے۔ پورے احتیاط اور اجتماعی شہادت کے ساتھ انہیں جمع کرنے کا کام سب سے پہلے اسلامی خلیفہ حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے دور میں شروع ہوا۔ لیکن آج جو قرآن ہم پڑھتے ہیں اس کی تکمیل تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کے دور میں ہوئی جنہوں نے قرآن کی تکمیل کے بعد تمام ذاتی نسخوں کو جلا نے کا حکم دے دیا تھا۔ یہ ماجرا مکمل طور پر ان روایات پر مشتمل ہےجو ابن شہاب زہری (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہیں، تاہم اس پر یقین کرنا میرے لیے ایک مشکل امر ہے۔ کیوں کہ یہ روایت قرآن کے اس بیان سے متصادم ہے جو قرآن خود اپنے بارے میں واضح طور پر دیتا ہے۔
مثلاً قرآن کی آیات 2:2, 10:1, 11:1, 16:89 وغیرہ میں اللہ نے قرآن کا ذکر ‘‘الکتاب’’ کے طور پر کیا ہے۔
قرآن نے یہ واضح کر دیا کہ: ‘‘کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے’’۔ (56:77, 78)
خود قرآن کا بیان ہے کہ قرآن کھال پر لکھا ہوا تھا (5:2, 3)۔
قرآن میں یہ بیان بھی ہے کہ: ‘‘قابل ادب ورقوں میں (لکھا ہوا)، جو بلند مقام پر رکھے ہوئے (اور) پاک ہیں، لکھنے والوں کے ہاتھوں میں، جو سردار اور نیکو کار ہیں’’ (80:13-16)۔
مذکورہ بالا آیتوں سے یہ بات واضح ہے کہ قرآن اپنے دور آغاز سے ہی مکمل طور پر محفوظ رہا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی اسے کتابی شکل میں محفوظ کر لیا گیا تھا۔ لہٰذا ابن شہاب زہری(رضی اللہ عنہ) کی طرف منسوب مذکورہ روایتیں اسلام کے بنیادی مصدر و مرجع سے متصادم ہیں۔ تاہم انہیں مکمل طور پر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ عین ممکن ہے کہ خلیفہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآن کے ایسے نسخے ملے ہوں جو پہلے سے موجود اصل مصاحف سے تیار کئے گئے ہوں۔ در حقیقت اصل مصحف مسجد نبوی کے ایک ستون کے قریب رکھ دیا گیا تھا۔ یہ متواتر حقیقت کہ اس ستون کو ‘‘استوانہ مصحف’’ کہا جاتا ہے اس بات کی شہادت کے لیے کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہی قرآن کریم ایک کتابی شکل میں موجود تھا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ہی تحفظ قرآن پر کافی توجہ فرمائی تھی۔ انہوں نے تقریبا اپنے تمام صحابہ کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ وہ قرآن کی ہر ہر آیت کو اپنے حافظے میں رچا بسا لیں۔(1) انہوں نے بطور عبادت روزانہ قرآن کی تلاوت کا حکم بھی صادر فرمایا تھا۔ قرآن کریم کو زبانی یاد کرنے، بار بار سننے سنانے اور خاص طور پر فرض نمازوں میں اس کی آیات کریمہ کی تلاوت کرنے کی تلقین فرماکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بہت سارے صحابیوں کوقرآن مکمل یاد کروا دیا تھا۔ لہٰذا متعدد ثقہ راویوں کے مطابق یہ ایک امر حقیقت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہی بہت سارے صحابہ کرام نے قرآن مقدس کو لفظ بہ لفظ حفظ کر لیا تھا جن میں سے چند مشہور صحابہ یہ ہیں: زید ابن ثابت، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، ابو زید رضی اللہ عنہم اجمعین (2)۔ ان صحابۂ کرام نے نہ صرف یہ کہ قرآن کی ہر ہر آیت کو حفظ کرلیا تھا بلکہ آیات کے صحیح مخارج پر بھی ازحد زور دیا تھاجو کہ بعد میں علم تجوید کے نام سے معروف ہوا جو آج علوم قرآنیہ کا ایک اہم حصہ ہے۔
علاوہ ازیں، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خود قرآن کی ترتیب و تنظیم کا بحسن وخوبی اہتمام فرمایا اور اپنے صحابہ کو اچھی طرح اس سے واقف بھی کر دیا (3)۔ ایسی بہت ساری مستند احادیث ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ ہر رمضان کے مہینے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم متعدد صحابہ کی موجودگی میں جبرائیل علیہ السلام کے سامنے بالکل اسی ترتیب کے عین مطابق پورے قرآن کی تلاوت فرماتے جس ترتیب کے ساتھ پوراقرآن نازل کیا گیا تھا (4)۔ اور جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا سال آیا تو انہوں نے دو مرتبہ اس کی تلاوت کی فرمائی (5)۔ لہذا، وہاں پر موجود تمام صحابہ کے ذہن ودماغ میں تمام قرآنی آیات اور سورتوں کی ترتیب اچھی طرح جاگزیں ہو گئی۔
مذکورہ بالا حقائق اس بات کے غماز ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی تمام قرآنی آیات کو تحریری صورت میں محفوظ کر لیا گیا تھا۔ اس عظیم ترین کام کو تربیت یافتہ صحابہ نے انجام دیا تھا جن میں حضرت زید ابن ثابت (رضی اللہ عنہ) کا نام بطور اہم قابل ذکر ہے (6)۔ دیگر متعدد صحابہ جیسے ابی بن کعب، عبداللہ ابن مسعود، معاویہ ابن ابی سفیان، خالد بن ولید اور زبیر بن عوام بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ممتاز کاتبین وحی میں شامل تھے (7)۔ یہ حضرات قرآنی آیات کو چمڑوں، جانوروں کی جلدوں اور ان کی ہڈیوں اور کھجور کے چھالوں پر تحریر کر کے محفوظ کر لیا کرتے تھے (8)۔
اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ 7ویں صدی عیسوی سے لے کر اب تک قرآن کریم اپنی اصل شکل پر باقی ہے اور یہی دنیا کی واحد کتاب ہے جس کی اب تک سب سے زیادہ تلاوت کی گئی ہے اور سب سے زیادہ حفظ بھی کیا گیا ہے۔ لہذا وحی الہی کی دیگر کتابوں کے درمیان قرآن کریم سب سے زیادہ محفوظ اور صحیح و سالم رہا ہے۔ قرآن کے تحفظ میں سب سے بڑا اور بنیادی کردار اس کی مسلسل تلاوت اور متواتر حفظ کا رہا ہے جو عہد رسالت سے لے کر اب تک لاکھوں لوگوں کے ذریعہ احتیاط کے ساتھ جاری وساری ہے۔ قرآن مقدس کی اس نمایاں خصوصیت نے کینتھ کریگ (Kenneth Cragg) جیسے سیکولر اسکالرز اور ممتاز مستشرقین کو سوچنے اور یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ:
” مسلمانوں میں کثرت کے ساتھ قرآن خوانی کے رجحان کے باعث قرآنی آیتوں نے خلوص کا ایک زندہ اور باتسلسل مظہر بن کر صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن کو نہ تو محض کوئی قدیم ورثہ قرار دیا جا نا چاہئے اور نہ ہی اسے ایک عام تاریخی دستاویز سمجھا جانا چاہئے جس کا تعلق ماضی بعید سے ہے۔ حفظ قرآن کی حقیقت نے مسلم ادوار میں گردش ایام کے باوجود قرآن کو ایک لازوال خزانہ کے طور پر پیش کیا اور اسے ہر نسل میں اثر و قبول عطا کیا ہے اور اس کی منتقلی کو کبھی بھی صرف حوالہ جات کی ایک اتھارٹی نہیں بننے دیا ۔ “( کینتھ کریگ، دی مائنڈ آف قرآن،لندن: جارج ایلن اینڈ ان ون، 1973، صفحہ 26)
تاہم، ہمیں ان احادیث کی معتبریت کی تحقیق کرنی چاہیے جنہیں اسلام مخالف محققین یا مستشرقین قرآنی آیتوں کی صداقت اور کاملیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) کی طرف منسوب وہ حدیث جس میں یہ روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ ‘‘ مجھے پورا قرآن حاصل ہو گیا ہے’’ تمہیں کیسے معلوم کہ پورا قرآن کیا ہے؟ قرآن کا بہت سارا حصہ ہم سے چوک گیاہے ۔ اس کے بجائے تم یہ کہو کہ، ‘‘ہمیں اتنا ہی قرآن حاصل ہوا جتنا محفوظ رہا’’۔ (دی کلشن آف دی قرآن ، جان برٹن، صفحہ: 2)
اس طرح کی روایتوں کے پیچھے دو مقاصد ہو سکتے ہیں ، جیساکہ جان برٹن نے بھی اپنی کتاب “The collection of the Qur’an” کے صفحہ: 2 میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پہلا مقصد قرآنی نصوص کی ترتیب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناکامی ظاہر کرنا (نعوذ باللہ) اور دوسرا مقصد قرآن کی عدم تکمیل اور اس کے کچھ حصوں کے گم ہوجانے کا امکان باور کرانا ہو سکتا ہے۔
ایسے مستشرقین بھی ہیں جنہوں نے قرآن کی تدوین اور تحفظ پر خاصا مثبت کام کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی قرآن کو محفوظ کر لیا گیا تھا اور اس کی تحقیق وتوثیق بھی کر لی گئی تھی۔ نامور مستشرق اسکالرجان برٹن کا تعلق بھی اسے طبقہ سے ہے۔ موصوف نے اپنی کتاب “The collection of the Qur’an” کے آخری صفحات میں قرآنی نصوص کے بارے میں اپنا اختتامیہ اس طرح لکھا ہے:
‘‘…..قرآن وہ کتاب جو ہمارے پاس اسی شکل میں پہنچی جس شکل میں اسکی تائید و توثیق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود کی تھی…..درحقیقت آج جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کا مصحف ہے (9)۔
(1)صحیح البخاری، جلد 6، حدیث نمبر 546۔
(2) صحیح البخاری، جلد 6، حدیث نمبر 525۔
(3) علوم القرآن، تصنیف ون ڈینفر، دی اسلامک فاؤنڈیشن، یوکے، 1983، صفحہ 41-42۔
(4) صحیح البخاری، جلد 6، حدیث نمبر 519۔
(5) صحیح البخاری، جلد 6، حدیث نمبر 518 اور 520۔
(6) الاتقان فی علوم القرآن، مصنف جلال الدین سیوطی، بیروت: مکتبۃ الثقافیہ، 1973، جلد 1، صفحہ 41 اور 99۔
(7) الاشباہ فی تمیز الصحابہ، مصنف ابن حجر العسقلانی، بیروت: دارالفکر، 1978۔
(8) کتاب فہم السنن، مصنف الحارث المحاسبی، مندرج الاتقان فی علوم القرآن، مصنف امام سیوطی، جلد 1، صفحہ 58۔
(9) جان برٹن، ‘‘The Collection of the Qur’an’’ (دی کلکشن آف دی قرآن)، کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1977، صفحہ 239-40۔
(انگریزی سے ترجمہ: نیو ایج اسلام)
غلام رسول دہلوی ایک عالم اور فاضل (اسلامی اسکالر ) ہیں ۔ انہوں نے ہندوستان کے معروف اسلامی ادارہ جامعہ امجدیہ رضویہ (مئو، یوپی، ہندوستان ) سے فراغت حاصل کی ہے، الجامعۃ اسلامیہ، فیض آباد، یوپی سے قرآنی عربی میں ڈپلوما کیا ہے ، اور الازہر انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز بدایوں، یوپی سے علوم الحدیث میں سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے عربی (آنرس) میں گریجویشن کیا ہے، اور اب وہیں سے تقابل ادیان ومذاہب میں ایم اے کر رہے ہیں۔
.
Show More

Related Articles

2 Comments

  1. Very good writeup which has cleared many of my doubts about the authenticity of the collection and preservation of the Qur’an from parchments to the print copies.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »