Site icon Word For Peace

Jihad & Verses of Jihad by Dr. Inayatullah Asad Review by Dr. Ghitreef Shahbaz Nadwi

 

تبصرہ
جہاد اورآیات جہاد:مصنف، مولانا ڈاکٹرعنایت اللہ اسد سبحانی
ناشر:ہدایت پبلشرزاینڈ ڈسٹربیوٹرز نئی دہلی
مبصر:ڈاکٹرمحمدغطریف شہباز ندوی ٭
جہاد دہشت گردی کا نام نہیں ۔ان دونوں میں اتنی ہی دوری ہے جتنی آسمان وزمین میں ۔اسلام اورخوںریزی کبھی جمع نہیں ہوسکتے جیسے آگ اورپانی جمع نہیں ہوسکتے۔ قرآن کریم جودین کا اولین مصدرہے، سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے ،سنت قائمہ جاریہ سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔البتہ بعض روایات آحاداوران کی بنیاد پر بننے والی فقہی آراءسے لوگوں کے دلوں میں جہاداوراسلام کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں پیداہوتی ہیں۔ اوریہ غلط فہمیاں معمولی نہیں بلکہ اتنی زیادہ عام ہیں کہ اچھے اچھے اذہان ان کا شکارہیں۔ غیرہی نہیں اپنی صفوں میں پھیلے انہیں نادان دوستوں کی باتوں،نعروں،وعظوں اوربے محابا بیانات سے غیروں کوخوب مسالہ مل جاتا ہے اوروہ دین کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے۔ لہذاضروری ہے کہ ان رخنوں کوبند کیاجائے جہاں سے غلط فہمیاں پیداہوتی ہیں۔ اسی مبارک مقصدسے استاد محترم مولاناعنایت اللہ سبحانی نے جہاد وروح جہاد لکھی تھی جومقبول ہوئی ۔ مگربعض علمااورنوجوانوں کواس پرکچھ اشکالات ہوئے ،اوربعض لوگوں کواعتراضات بھی ہوئے جن کے جواب میں مولانانے اب “جہاداورآیات جہاد” لکھی ہے اوراشکالات کا شافی جواب دیا ہے۔
یہا ں ایک اصولی بات اورواضح رہنی چاہيے۔اوروہ یہ ہے کہ ایک توہے قرآن وسنت کا کا متن دوسراہے ان کا فہم ۔ ہمیں ان دونوں میں واضح طورپر فرق کرناچاہيے اورمحقق علماہمیشہ ان میں واضح فرق رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اکثراوقات ہم اس فرق کوملحوظ نہیں رکھ پاتے ۔ظاہربات ہے کہ متن ہمیشہ یکساں رہتاہے مگرضروری نہیں کہ اس کے فہم میں بھی اسی طرح کی یکسانیت رہے اورنہ ہی یہ دین کا مطلوب ہے ۔اگرایسا تسلیم کرلیاجائے جیساکہ بہت سے روایت پرست سمجھتے ہیں تواِس سے دین کی آفاقیت مجروح ہوتی ہے۔کسی عصرکا فہم دین دین کا ناگزیرحصہ نہیں ہوتا بلکہ دینی روایت کا حصہ ہوتاہے اورجس سے علمی سفرکے جاری رکھنے میں استفادہ کیا جاتا ہے۔ فہم متن میں ہمیشہ ارتقاءہوتا رہتا ہے ،تحقیق وتعبیرجدید کے ہمیشہ امکانات پائے جاتے ہیں۔ ہمارے روایتی حلقوں میں افسوس کہ نہ توتحقیق وتفتیش کے اصول کوآزادانہ برتا جاتا ہے اورنہ فہم دین کی نئی جہات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔مثال کے طورپر جہادکے بارے میں مسلمانوں میں بہت معروف ومشہورفہم یہ چلاآرہا ہے کہ نہ کفرکوبرداشت کیاجائے گااورشوکت کفرکواوران دونوں کے خاتمہ کے ليے ہی جہاد کومشروع کیا گیا ہے ۔جہاد کے بارے میں یہ روایتی تصورفہم متن میں قصورنظرکا شاخصانہ معلوم ہوتا ہے ۔سبحانی صاحب نے اس کتاب میں متعلقہ آیات کریمہ کے مطالعہ اوراحادیث کی تحقیق کے ذریعہ دلائل سے بتایاہے کہ یہ کلیہ غلط ہے ۔قرآن پاک سے فتنہ وفساداورظلم وزیادتی کے خاتمہ کے ليے جہاد کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے ۔یہ جہاد سے متعلق آیات کی نئی تحقیق اورنیا فہم ہے جس پر علمی بحث وگفتگوکی مصنف نے اہل علم اور قارئین کودعوت دی ہے۔
اس کتاب سے بعض غلط مفاہیم کی تصحیح بھی ہوتی ہے ،مثال کے طورپر بعض روایات کے زیراثرمسلمانوں میں یہ تصوررائج ہے کہ دین میں اکراہ پایاجاتا ہے ۔جبکہ قرآن کریم اس کی صریح الفاظ میں تردید کرتا ہے اورلااکراہ فی الدین کواصل الاصول بتاتا ہے ۔ فقہاءاورعلما عموما یہ توجیہ کرتے ہیں کہ کئی روایات ایسی ہیں جواکراہ کوثابت کرتی ہیں مثال کے طورپر یہ بات کہ سات سال کی عمرمیں بچہ کونمازکاحکم دیاجائے اوردس سال کی عمرمیں اس کونمازنہ پڑھنے پر ماراجائے ۔اب مسلمان گھروں میں ،مکاتب اورمدارس میں ہرجگہ اس اصول کواپلائی کیاجاتاہے ۔اسی طرح استدلال کیاجاتاہے کہ مرتدکی سزادین میں قتل ہے ۔تارک نماز کوبعض فقہاءقتل کردینے کی سزاتجویز کرتے ہیں وغیرہ یہ سب باتیں دین میں اکراہ کوبتاتی ہیں۔ اورتواورشاہ ولی اللہ صاحب نے بھی حجة اللہ البالغہ میں یہی لکھاہے کہ دین میں اکراہ پایاجاتاہے۔ اب ایک سوال تویہ ہے کہ موجودہ ذہن کوکیا ہم ان دلیلوں سے مطمئن کرسکتے ہیں؟ اوراس سے بھی بڑاسوال یہ ہے کہ ان طریقوں سے حاصل کیا ہوتاہے؟کیامارپٹائی سے بچہ یاطالب علم نمازکا پابنداورشوقین بن جاتاہے؟اس کا جواب ناہے اوریہ سراسرحکمیمانہ قرآنی اورنبوی منہج کے خلاف ہے ۔ ہمارے ذہن میں خودہمیشہ یہ سوال رہاکہ کیااس غیرحکیمانہ طریقہ کودین کی طرف اوررسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیاجاسکتا ہے ؟ اس کا شافی جواب کہیں نہیں ملتاتھا۔مولاناسبحانی کی تحقیق یہ ہے کہ (۱) یہ سب روایات ضعیف اورکمزورسندوں سے واردہوئی ہیں،اس ليے ان کولااکراہ فی الدین کے قرآنی حکم پر حَکم بنانا درست نہیں (۲)تربیتی نقطہ نظرسے بھی یہ فہم درست نہیں کہ بچوں یاطلبہ کونمازوغیرہ کے ليے مارا پیٹا جائے اس کا صحیح طریقہ ان کومحبت آمیز نصیحت،خیرخواہانہ کاونسلنگ اورشفقت آمیز مشاورت وتربیت ہے ۔ جس کے اثرات مثبت اوردیرپاہوتے ہیں۔
یہ ایک مثال ہے ورنہ اوربھی کتنے ہی غلط مفاہیم وتصورات لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں جن کاناقدانہ جائزہ لینے اورتصحیح کی ضرورت ہے۔ ہمارے خیال میں فقہاءکرام کا اکراہ کوجواستدلال ہے اس کا تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ کفرکی وجہ سے اہل کفرچونکہ خداکے باغی ہوجاتے ہیں اس ليے ان کی جان ومال اورآبرواصلاً معصوم نہیں رہتے ۔(اہل عہداوراہل ذمہ کا استثناءہے)اگران کویہ چیزیں ملی ہوئی ہیں تویہ اہل اسلام کے طفیل میں ان کوحاصل ہیں۔ چنانچہ فقہاءعام طورپر اس کے قائل ہیں کہ اہل کفرواہل اسلام میں تعلقات کی اصل نسبت محاربہ کی ہے صلح وآشتی کی نہیں ۔اسی وجہ سے شافعیہ یہ کہتے ہیں کہ مسلم امام (مسلم حکومت )کوزیادہ سے زیادہ دس سال اہل کفرسے صلح کی گنجائش ہے اس سے زیادہ کی نہیں اوران کووقفہ وقفہ سے کافرحکومت پر حملہ کرتے رہنا چاہيے۔ حنفیہ کی رائے دوسری ہے اوران کے نزدیک صلح وجنگ اصلاً مسلم مملکت کے مصالح پر موقوف ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کلاسیکل فقہی موقف نظرثانی کا محتاج ہے یانہیں ؟ مولانامودودی رحمہ اللہ نے اس موقف سے تھوڑاسااختلاف کرتے ہوئے یہ کہاہے کہ کفرمسئلہ نہیں ہے اورصرف کفرکی وجہ سے کوئی جنگ نہیں کی جائے گی مگرشوکت ِکفرالبتہ اسلام کے نزدیک قابل برداشت نہیں ہے۔ مکتب فراہی کے علما مثلاً جناب جاویداحمدغامدی صاحب اس پر قانون اتمام حجت کا استدلال پیش کرتے ہیں۔ بہرحال سبحانی صاحب کا موقف اِن دونوں موقفوں سے مختلف ہے اوروہ صرف اہل کفرکے فتنہ وفسادکوجہاد کا سبب مانتے ہیں۔اسی طرح انہوں نے قانون اتمام حجت کوبھی جہاد کا سبب نہیں ماناہے ۔اِس موقف پر علما اوراہل نظرنقدونظرکریں اورایک علمی بحث ومباحثہ کا آغاز ہو یہی ان تحریروں کا مقصد ہے۔
سیرت وتاریخ اسلام کا بھی قرآن کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے چنانچہ غزوہ احد کے بارے میں اس عام غلط فہمی کا پردہ بھی مصنف نے چاک کیا ہے کہ مسلمانوں کواس غزوہ کوشکست ہوئی تھی ۔ نبی وقت کی موجودگی میں اورقرآن کے اس اصول کی روشنی میں کہ: انالننصررسلنا فی الحیاة الدنیا ویوم یقوم الاشہاد(51 )اس مشہورعام بات کوتسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ پھرخوداس غزہ کی جوتفصیلات سیروتاریخ کی کتابوں میں آئی ہیں ان کی کڑیاں جوڑنے سے ایک مختلف تصویرسامنے آتی ہے جومشہورعام نیریٹوکے بالکل متضادہے لہذااس پر ازسرنوغورکرنے کی ضرورت ہے-
بعض مشہورعام (تفصیل کے ليے دیکھیں کتاب کا صفحہ 182) سیرت سے متعلق بعض روایات وواقعات کے متعلق
غلطیوں کومصنف مدظلہ نے آیات قرآنیہ کے ذریعہ دورکرنے کی کوشش کی ہے ۔ بعض جوشیلے علمااورجذباتی نوجوانوں کوجب جہاد ومتعلقات جہاد کے متعلق حقائق کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے تووہ واویلاشروع کردیتے ہیں کہ یہ مغربی سازش کا حصہ ہے اورجہادکی منسوخی کی کوشش کی جارہی ہے وغيره- مصنف نے جذبہ خیرخواہی کے ساتھ ان کی الجھنوں کودورکرنے کی بھی کوشش کی ہے۔(صفحہ 187)
خاکسارکا خیال ہے کہ جن لوگوں کوقرآن کی روشنی کفایت کرتی ہے ان کے ليے لااکراہ فی الدین اورمرتدکی سزاوغیرہ کے معاملا ت میں مصنف کی تحقیق کافی ہوگی ویسے حرف آخرعلمی دنیامیں کچھ نہیں ہوتا،ان مسائل پر بحث وگفتگوکی پوری گنجائش موجودہے لیکن علمی استدلال کے ساتھ ۔ البتہ جولوگ روایات کے اسیراورتقلیدی ذہنیت کے حامل ہیں ا ن کے ليے کوئی بھی چیز کفایت نہیں کرتی ۔اصلاح احوال کے ليے مولاناسبحانی نے علما واہل علم حضرات سے یوں اپیل کی ہے : ”اب حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ علما کرام کواپنی غلطیوں پر نظرثانی کرنے میں دیرنہیں کرنی چاہيے۔ماضی میں جوغلطیاں ہوئی ہیں ان کی تلافی کرنے اورلوگوں کوصحیح بات سمجھانے کی کوشش کریں۔ کسی سے غلطیاں ہوجانا کوئی بڑی با ت نہیں۔البتہ غلطیوں پر اصرارکرنا نہایت خطرناک بات ہے “۔(صفحہ 236)
چوتھے باب میں مصنف نے جرح وتعدیل کے بعض اصولوں پر نظرثانی پر زوردیاہے ۔ظاہرہے کہ جرح وتعدیل کے اصول اجتھادی ہیں کوئی منصوص چیز نہیں اورجب منصوص نہیں توان میں نظرثانی میں کیامضائقہ ہوسکتاہے۔ کیونکہ راویوں کی توثیق وتجریج میں مختلف اقوال ہیں۔ایک محدث ایک راوی کی تضعیف کرتاہے جبکہ دوسرا اس کی تضعیف کررہا ہوتا ہے ۔درایت کے کم استعمال کی وجہ سے کتنی ہی ایسی روایتیں ہیں جو تفسیروحدیث،سیرت وتاریخ اوردوسرے دینی علوم میں داخل ہوگئی ہیں جودین کوذبح کرتی ہیں۔قرآن کی ثقاہت کومجروح اوررسول اللہ ﷺ کی عصمت کوداغدارکرتی ہیں۔مثال کے طورپر تدوین قرآن کی روایات ،قرا ءات کے اختلافات وغیرہ ۔کسی نے صحیح کہاہے :
یہ امت روایات میں کھوگئی حقیقت خرافات میں کھوگئی
حدتویہ ہے کہ تلک الغرانیق العلاوالی بے سروپاروایت کتنی ہی تفسیروں میں بلاتضعیف کے نقل کردی گئی ہے۔بہرحال یہ موضوع توتفصیل کا متقاضی ہے اوراس پر یہاں گفتگوکرنے سے تحریرتبصرہ کی حدسے نکل جائے گی ۔ مختصریہ کہ یہ کتاب فکرونظرکے باب واکرتی اوراذہان وقلوب کوتفکروتدبرپر ابھارتی ہے ۔کتاب ہدایت پبلشرزنئی دہلی نے اچھے گٹ اپ کے ساتھ شائع کی ہے۔قریبا300صفحات پر مشتمل ہے۔ قیمت 220 بہت مناسب ہے اورکتاب بڑے آسان اوررواں اسلو ب میں لکھی گئی ہے۔ لهذا ہرخاص وعام اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔امید ہے کہ سبحانی صاحب کی جہادپر ان پرمغز تحریروں سے ایک نئے ڈسکورس کا آغازہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭رسرچ ایسوسی ایٹ مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہندعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

Exit mobile version
Skip to toolbar