Religion for PeaceSpirituality for Peace

Shah e Hamdan’s Mystical Inspiration and Contributions to the Valley of Kashmir: Ghulam Rasool Dehlvi شاہ ہمدان ؒ اور ان کی مذہبی فکر

 غلام رسول دہلوی
 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Shah e Hamdan’s Mystical Inspiration and Contributions to the Valley of Kashmir
اہلیانِ کشمیر اولاً اسلام کے فروغ کے حوالے سے اور ثانیاً ثقافتی جہتوں کے نشوونما کے لئے شاہ ہمدان امیر کبیر میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے مقروض ہیں۔شاہ ہمدانؒ نے اپنے رسالہ وجودیہ کے ذریعے اور ابن عربیؒ کے فلسفہ وحدت الوجود کے حوالے سے ‘فصوص الحکم’ اور ‘انسان الکامل’ کی شروحات تحریر فرمائیں۔ دیکھا جائے تو موجودہ جنوبی ایشیا میں ، شاہ ہمدانؒ کی تصانیف اور تعلیمات سے علم و عرفان کے کئی چشمے پھوٹے ہیں۔
 شہمیری خاندان کا ابتدائی دور یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ اس میں وسطی ایشیاء سے صوفیاء کرام کی ایک بڑی جماعت خصوصاًشیخ سید علی ہمدانیؒ وارد کشمیر ہوئے۔انھوں نے کشمیر میں اسلام کی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کیا اور یہ ان ہی کا فیضان ہے کہ کشمیر ‘پیر واری’ کے نام سے معروف ہوئی۔ شاہ ہمدانؒ کو ‘امیر کبیر ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور آپ کبرویہ سلسلے سے تعلق رکھنے والےچودھویں صدی عیسوی کے  ایک عظیم صوفی بزرگ گزرے ہیں۔شاہ ہمدان ؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے خالق حقیقی اور انسان کے درمیان انس و محبت کے والہانہ ربط کا اظہار کیا ہے اور فرد کی روحانی نجات پر ذور دیا ہے لہذا ہمیں اس سے نہ صرف محضوض ہونا چاہئے بلکہ اس سے رہنمائی بھی حاصل کرنی چاہئے۔
 شاہ ہمدان ؒ کی شاعری انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو چھوتی ہے۔ یہ ہمیں زندگی کے عظیم اصولوں سے متعارف کرواتی ہے اور فلسفہ حیات سے واقف کراتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ عظیم مسلمان فلسفیوں کے زمرے میں ایک منفرد جگہ پانے کے مستحق ہیں۔  انہوں نے کشمیر میں اسلام کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔  اس کے علاوہ ، انہوں نے وادی کشمیر میں مختلف علوم و فنون اور ثقافت و حرفت کے فروغ میں خاص رول ادا کیا اور تیار کیا اور ایران سے مختلف ماہرین ، دستکاروں اور صنعت کاروں کو بلا کر کشمیر میں اپنا فن پیش کرنے پر ابھارا  جس سے کشمیر میں ایک عظیم سماجی،  ثقافتی اور معاشی انقلاب برپا ہوا۔
 کہا جاتا ہے کہ وہ 700 قابل اور باہنر ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے اور قالین بافی اور شال بافی کی صورت میں یہاں کے لوگوں کو ایک بہتر روزگار سے متعارف کرایا۔ان باصلاحیت دستکاروں نے مقامی آبادی کو پشمینہ، ٹیکسٹائل اور قالین سازی کے رموز سکھائے۔  ٹیکسٹائل صنعت میں ان کی فعال شمولیت اور حمایت سے ریاست جموں و کشمیر خصوصاً لداخ کو زیادہ فائدہ ہوا ہے۔  کشمیر میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی نشوونما نے ان کی اہمیت میں اضافہ کیا، جس سے کشمیر سے لداخ کی طرف ہجرت کا رجحان پیدا ہوا، اس کے نتیجے میں کشمیری مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد لداخ میں آباد ہوگئی، اور انہوں نے وہاں لکھنے اور سکے بنانے کا فن متعارف کیا۔ (جیکولین ، 2008)
 شاہ ہمدانؒ نے مختلف دستکاری سرگرمیوں کے فروغ میں اہم رول ادا کرتے ہوئے اسے گھر گھر پہنچایا۔ظاہر ہے اس قسم کی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے باہنر افراد کی اشد ضرورت تھی اور نتیجتاً سماج کے ایک بڑے حصے کو بہتر روزگار فراہم ہوا۔ حالانکہ اصولی طور پر ایک صوفی ہونے کی وجہ سے آپ امور دنیا کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے اور چھوٹی عمر سے ہی دنیاوی معاملات کو ترک کرکے آپ نے اسلامی تصوف کی آغوش میں پناہ لی تھی۔
 اسلامی علوم کے حصول اور تصوف میں کمال حاصل کرنے کے لئے آپ نے ابتدائی دور میں اپنے ماموں جان سید علاو الدین سمنانیؒ سے اکتساب فیض کیا جو کبروی سلسلے سے تعلق رکھنے والے ایک عظیم روحانی بزرگ کے طور پر تسلیم کئے جاتے تھے۔آپ میں تصوف سے عملی رہنمائی حاصل کرکے داخلی افزودگی کے ساتھ ساتھ ہمہ گیر اسلامی تعلیمات کی طرف خاصا رجحان دیکھنے کو ملتا ہے۔
 ابنِ عربیؒ کے فلسفے پر بطور شارح شاہ ہمدانؒ کے کام نے انہیں جنوبی ایشیاء کی ایک مشہور و معروف شخصیت بنانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ انہیں جنوبی ایشیاء میں ابن عربیؒ کے فلسفے کو پیش کرنے کا خصوصی اعزاز حاصل ہے۔ معاشرتی ، مذہبی ، اور معاشی میدانوں میں تنظیم سازی اور اسلام کے بارے میں ان کے متوازن نظریات قوموں کی باہمی رسا کشی کے درمیان ایک امید افزا علامت ہے۔  آج بھی ان کا شمار ان عظیم مصلحین میں ہوتا ہے جنہوں نے تلاشِ حق کے لئے معلوم دنیا کے ایک بڑے حصے کا سفر کیا۔(ارمٹراؤڈ ، 1997) انہوں نے چین ، افغانستان ، شام ، ازبیکستان اور ترکستان (نجفی ، 2005) سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام کی تبلیغ کی۔  انہوں نے ہی ، کشمیر میں ، جس نے اسلام کو زندہ کیا تھا۔  اپنی تحریروں اور حکمت عملی سے جس طرح انہوں نے دعوت دین کا کام کیا اسے مسلم علماء و دانشوروں اور قرون وسطی کے نامہ نگاروں نے پوری دنیا میں بے حد سراہا۔ہر جگہ ان کا احترام کیا جاتا ہے اور ان سے محبت کی جاتی ہے۔  اپنی کتاب “ہفت اقلام” میں امیر احمد رازی لکھتے ہیں کہ شاہ ہمدانؒ نے تین مرتبہ دنیا بھر کا سفر کیا اور چودہ سو اولیاء اللہ سے ملاقات کی۔(راؤ ، این ڈی)
 شاہ ہمدانؒ کی نظر میں اسلام کی غلط تعبیر اور اس کی آڈ میں لوگوں کے ساتھ غلط سلوک کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے ایسی تمام سرگرمیوں کے خلاف حرف احتجاج بلند کیا جو انسانیت کی اخلاقی بربادی کا باعث ہیں۔  وہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے بخوبی واقف تھے ، اور یہاں تک کہ دنیا کے مختلف حصوں میں اپنی تبلیغ کے ذریعہ بھی اس کو آگے بڑھاتے رہے۔ 
تخلیق کے بارے میں اپنے بہتر فہم کی بدولت، آپ نے عالم انسانیت کی فلاح اور اسے صحیح راستے پر رکھنے کے لئے ایمان کی افادیت اور خالق کائنات کی فرمانبرداری پر خصوصی زور دیا۔
اسلام کے ساتھ آپ کی بے پناہ عقیدت و وابستگی اور خدا کی بارگاہ میں آپ کی خود سپردگی کا اندازہ آپ کی تبلیغی سرگرمیوں سے کیا جاسکتا ہے۔
آخر میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ دور حاضر میں شاہ ہمدانؒ کی مذہبی فکر پر ازسرنونظر ثانی کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ آپ نے نہ صرف اسلامی تعلیمات پر بذات خود من و عن عمل کیا بلکہ آزادانہ طور پر اسلام کی آفاقی اقدار اور اس کے اصولوں کا دفاع کیا۔  
فلسفے میں انسانی زندگی کی حقیقت اور اس کے ساتھ منسلک رویوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تہذیبوں کا عروج و زوال اس بات پر منحصر ہے کہ وہ سماجی ، ثقافتی ، سیاسی اور معاشی حوالوں سے اپنے مذہبی فلسفے کو کس طرح سمجھتے ہیں اور اس کی کیا تعبیر کرتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ  تمام اقوام زوال کی شکار ہوئیں جنہوں نے مذہب اور عظیم رہنماؤں کے افکار و نظریات کو نظرانداز کر دیا۔ پچھڑی ہوئی اقوام اور خاص طور پر جنوبی ایشیائی ممالک کو اپنے سماجی ، قانونی ، ثقافتی ، سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے کے لئے شاہ ہمدانؒ کے نظریات پر غور و خوض کرنا چاہئے اور ان کی روشنی میں درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے۔
عالم اسلام کو مسلم دشمن مغربی اقوام کے پھندوں سے باہر نکل کر ان کے استحصالی عزائم کا اپنی داخلی قوت سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے۔اس مقصد کے حصول کے لئے  شاہ ہمدانؒ جیسی عظیم شخصیات کے نقوس قدم ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں۔دور حاضر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم صوفیاء کی تصانیف پر جدید اسالیب میں تحقیق کی جائے اور عالم انسانیت کو اس گرانقدر سرمایہ سے روشناس کرایا جائے کیونکہ یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے  صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے دوردراز مقامات تک اپنے کردار اور حکمت سے دعوتِ دین کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیا۔
ترجمہ: میر امتیاز آفریں
 حوالہ جات
 1۔ بارزگر :کریم نجفی (2005) : تیموری اور صفوی دور کے دوران فکری تحریکیں
2۔ فیوکس ، جیکولین ایچ (2008) :شاہراہ ریشم کے ساتھ منسلک تجارت اور عصری سوسائٹی
 3۔ رفیع آبادی ، حمید نسیم (2003)۔  ‘’ عالمی مذاہب اور اسلام: ایک تنقیدی مطالعہ
4۔ راؤ ، وی ایس:  کشمیر کی ایک تاریخ (1947 ء تک)
 5۔ اسٹیلریکٹ ، ارمٹراوڈ (1997): حال میں ماضی
Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »