Religion for PeaceUrdu

Significance of Amjhar Sharif in Aurangabad, Bihar: By Maulana Ansar Raza Amjadi

ضلع اورنگ آباد ( بہار) سے 50km پٹنہ سے 100کیلو میٹر کی دوری پر ایک گاؤں آباد ہوا جو امجھر شریف کے نام سے موسوم ہے۔ جو امجا جنگل کے نام سے مشہور تھا یہ اورنگ آباد ضلع ہی میں ہے۸۴۶ ہجری میں قادری بزرگ سید الھند سیدنا محمد قادری بغداد ی رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے
آپ کا قلمی نام _ محمد قادری
والد بزرگوار _ شمش الدین درویش قادری
ولادت باسعادت _ ۲۵رمضان المبارک سن ۸۱۰ہجری

آپ کے والد بزرگوار سید العلماء والمشائخ حضرت سیدنا شمش الدین درویش قادری محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی آل سے ہیں اور وہ اپنے وقت کے اکابر علماء و مشائخ میں شمار کئے جاتے تھے ۔اور حضور سید العلماء اپنے آبائی خانقاہ قادریہ کے سجادہ نشیں تھے ۔ اور آپ سید الھند رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ ماجدہ کا اسم مبارک سیدہ فاطمہ تھیں جو حضرت سیدنا عبد العلی حسنی کی دختر نیک اختر تھیں
تحصیل علوم دینیہ
حضرت سید الھند رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر کا ساتواں سال تھا ۔ آپ کے والد ماجد نے رئیس الاتقیاء حضرت شیخ خلیل اللہ کے مدرسہ میں داخلہ کرایا ۔آپ نے شیخ صاحب سے حفظ قرآن کریم اور قرآءت کی تعلیم کی تکمیل کی اس کے بعد ادب ،فقہ ، اصول فقہ حدیث کی تعلیم حضرت شیخ ابو اسحاق سے حاصل کی جو حضرت معروف کرخی کے خاندان کے ایک فرد تھے ۔ شیخ ابو اسحاق سے کوفی کوفہ مشائخ کبار میں سے تھے ۔سماع علم اوراسماء الرجال کی تعلیم حضرت شیخ ابوالمکارم جنیدی، شیخ عبداللہ السعدی شیخ ابوالخیر عبدالرحیم اور شیخ ابوالناصر عبد الغفار نجفی سے حاصل کی، علم تصوف اور علم تفسیر حضرت علامہ ابوالفرح جنیدی سے حاصل کیا۔ اس طرح آپ ۲۳سال کی عمر میں ہی تمام علوم فنون حاصل کرچکے۔ سید الہند تمام علوم و فنون حاصل کرنے کے بعد اپنے والد بزرگوار کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوئے ۔
والد بزرگوار نے حکم دیا کہ دن میں علوم ظاہری حاصل کرنے میں مشغول رہو اور رات میں اوراد ووظائف، ذکر الہی اور بندگی میں منہک رہو ۔

آپ کی آمد
شیخ علی شیرازی مناقب محمدیہ قلمی ص ۴۳میں فرماتے ہیں ” ایک شب حضور سرور کائنات فخر موجودات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سید الھند رضی اللہ تعالی عنہ کے خواب میں جلوہ افروز ہوئے آور ارشاد فرما یا ۔” سید محمدقادری تم کو اسلام کی ترویج و اشاعت اور مظلوموں کی فریاد .رسی کے لئے ہندوستان جانا ہے
:مشہور مورخ شیخ علی شیراز ی لکھتے ہیں
خضرخاں والئ پنجاب کے پوتے محمدشاہ کے دور حکومت میں ۸۴۶ ہجری میں چالیس خلفاء کےساتھ سید الھند رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے۔
صوبہ بہار پرگنہ انچھا میں زمین دار راجہ جیون کولہ کے ظلم و ستم اور اور تشدد کا زور تھا صرف زمین دار ہونے باوجود اپنے آپ کو مطلق العنان بادشاہ سمجھتا تھا ۔ ٹوپی، کرتا۔اسلامی لباس،اور مذہبی فرائض ادا کرنے کی اجازت نہیں تھی اذان ونماز ادا کرنے والے مسلمان کو قتل کرا دیتا تھا ۔ ایک جید عالم دین شیخ علی ہندی کے خویش واقارب کو راجہ جیون کول بے رحمی کے قتل کرادیا شیخ نے ہندوستان کے حکمرانوں سے مدد کی اپیل کی کوئی بھی حاکم وقت مدد کے لئے نہ آئے آخر کار ہند سے مدینہ منورہ کا ارادہ کیا جہاں سبھوں کی فریاد سنی جاتی ہے سرکار دو عالم رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا اورجالیوں کے سامنے اپنی داستان الم سنایا سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خواب میں بشارت دی بغداد سے محمد قادری کو ہندوستان لے جاؤ آپ شیخ علی ہندی ۔ بغداد کے لئے روانہ ہوئے اور سید الہند کی بارگاہ میں حاضری دی اور ایک روز بغداد شریف میں قیام فرمایا ۔دوسرے روز حضورسید الہند اپنےوالد بزرگوار سے ہندستان جانےکی اجازت طلب کی ۔ حضرت سے اجازت ملنے کےبعد رخت سفر باندھا ۔
شیخ علی شیرازی تحریر فرماتے ہیں ” ہجرت کے وقت بڑا دل سوز منظر تھا۔ وطن سے ہجرت ، والدین کی فرقت ، بغداد سے ہند کا طویل سفر سید الہند رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک بڑی آزمائش بھی تھی ۔ بشری تقاضہ کے تحت دکھی ہونا ایک فطری امر ہے۔ شیخ حسن فرماتے ہیں کہ ” بچپن کے ایام سے آج تک میں نےغم زدہ نہیں پایا تھا لیکن شیخ علی ہندی کی تشریف آوری کے بعد حضور سید الہند کے چہرہ پر انوار پر رنج و غم کے اثرات دیکھے اور والد بزرگوار سے سفر ہند کی اجازت مل جانے کے بعد ہندوستان جانے کے لئے تیار ہوگئے تو ان کے روئے زیبا پر مسرت دیکھی ۔وجہ دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا کہ ” مجھے بہت زیادہ مسرت اس لئے ہوئی حاصل ہوئی کہ مجھے سید المرسلین علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ہندوستان کی سیادت عطا کی ۔ ہندوستان کے مظلوموں کی دادرسی،علم اسلام بلند کرنے اور قرآن حکیم کی روشنی پھیلانے کے لئے میرا انتخاب فرمایا ہے اس سے بڑھ کر اور کون سی سعادت ہوگی ۔ اس لئے اور خوش ہوں ۔

بغداد سے امجھر

آپ سید الھند رضی اللہ تعالی عنہ چالیس خلفاء ہندوستان کے لئے تیار ہوگئے تو آپ کے والد ماجد حضرت شمش الدین درویش قادری نے آپ سید الھند کو روانہ کرتے وقت جو تبرکات شریفہ عطا فرمائی ۔وہ تبرکات شریفہ یہ ہیں
موئے مبارک سرکارﷺ ٭ کمربند حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ ٭ سوزنی بیٹھنے و اوڑھنے کی۷۲ پیوندکی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی٭ گلوبند حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما ٭تاج مبارک ٭جائے نماز ٭تسبیح ٭ خرقہ ٭ کفن فقرائی ٭ سوزنی بیٹھنے اوڑھنے کی سرکار غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ ٭ قرآن پاک سرکار غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دست مبارک سے تحریر کیا ہوا جو ایک ورق میں ایک پارہ اور تیس ورق میں تیس پارہ ہے۔ جس کو بہ آسانی پڑھا جاسکتا ہے یہ عظیم قلمی قرآن پاک ایک تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے صرف اسی عظیم خانقاہ میں موجود ہے ٭

ہاں بات چل رہی تھی سرکار سید الہند رضی اللہ تعالی عنہ سفر کی توآپ قندھار سے ملتان منزل بہ منزل حدود ھند یو پی کے فیض آباد کے قصبہ سر ہر پور متصل کچھو چھہ مقدسہ میں وارد ہوئے اس قصبہ کو خواجہ وسرور نے۸۰۶ ھ میں سرور پور کے نام سے بسا یا تھا ۔ سرور پور وہ مقام جہاں سید حسن بن سید تاج الدین سید ابو صالح احمد پہلے سے سکونت پذیر تھے ۔ ان کو خواب بشارت ہوتی ہے ۔کہ تمہارے قصبہ میں سید الہند تشریف لارہے ہیں ۔ انہیں بہ عزت اپنے گھر پہ لانا اور اپنی خواہر کانکاح ان سے کر دینا ۔ سید حسن خواب سے بیدار ہوئے سید الہند کے استقبال کے لیے گئے اور بڑے احترام کے ساتھ اپنے دولت کدے پہ لائے ۔ انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کا غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا نسبت ہے۔ آپ نے اپنا نسب نامہ بیان فرمایا جس سے ان کو تسلی ہوئی جب ان کو آگاہی ہوئئ کہ آپ آل غوث اعظم اور حضرت سیدنا ابو الخیر قطب الدین کلاں قادری کے پوتے ہیں تو شاد کام ہوئے اور اپنی خواہر کانکاح سید الہند سے کرادیا ۔حضرت سید الہند پندرہ روز تک سرہرپور میں قیام فرمایا اور شیخ علی ہندی کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے اجازت لے کر آگے روانہ ہوئے اور اپنی شریک حیات کو وہیں قیام کرنے کی ھدایت کی ۔

یہ اہل علم کے درمیان جگ ظاہر ہے جب بھی ناپاک طاقتیں سر اٹھانے جسارت کی اور ظلم وزیادتی کا بازار گرم ہوا ۔ اللہ رب العزت انبیاء کرام کے بعد العلماء ورثة الأنبياء کے تاج زرین کی امین و پاسبان کو اپنے محبوب کے نیابت عطا فرمائی ۔ بحسن خوبی انجام دینے کی استعداد بھی دی ۔ جنہیں قرآن نے “الا ان اولیاء اللہ لاخوف ولا ھم یحزنون” فرمایا ۔
ان صاحبان رشدو ھدایت تبلیغ کے ساتھ ساتھ وقت کے فرعونوں کو خداد داد تصرف سے کو کیفر کردار تک پہنچایا ۔
جس طرح سرور کونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسلمانوں کی دست گیری کے لئے سلطان الہند خواجہء خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری منیر کے مظلوموں کی دادرسی کے لئے حضرت امام تاج فقیہ نالندہ کے مسلمانوں کی مدد اسی طرح ۸۴۶ ھ میں بحکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مظلوموں کی دادرسی کے،راجہ جیون اور ظالم کرمون کولہ کو سزا دینے اور اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے سیدالہند سیدنا محمد قادری بغداد ی رضی اللہ تعالی عنہ کی چالیس خلفاء ومریدین اور خادموں کے ساتھ ہند تشریف لائے ۔
آپ کے پاس نہ کوئی ہتھیار تھا،نہ فوج، پروردگار عالم نے انہیں ایک عظیم مقصد حصول کے لیے بھیجا تھا۔

بارگاہ رسالت کی حاضری اور” فلاخو لک لا الحزن یوما “کی بشارت
والد بزرگوار سیدنا شمش الدین درویش قادری نے ارشاد فرما یا کہ بارگاہ رسالت میں حاضری دینے کا وقت لہذا تم مدینہ منورہ میں حاضر ہوکر مسجد نبوی میں اعتکاف کرو ۔اعتکاف کے دوران ادع الی الحق کی آواز سنائی دے گی یعنی مخلوق خدا حق کی طرف بلاؤ لیکن اس صدا کی طرف متوجہ نہ ہو نا ۔جب تک بذات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ زیبا کی زیارت نہ کرلو ۔ اسوقت سید کونین خاتم المرسلین رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیں فورا عمل کرنا اس فرمان پر عمل کرنے میں تاخیر نہ کرنا ۔چنانچہ والد بزرگوار کےحکم سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے اور چھ ماہ تک مدینہ منورہ میں معتکف رہے ۔ایک دن خوش بختی کا ستارہ چمکا اور سرور کونین نے اپنے چہرہ زیبا کی زیارت سے مستفیض فرمایا ۔آپ نے زیارت جمال آرا سے وہ لذت پائی جو بیان سے بعید ہے۔ روضہ سرورکونین کے خدام بیان فرماتے ہیں ایک دن دربار رسول پاک میں سیدنا رضی اللہ تعالی عنہ کی عجیب سی کیفیت دیکھی ایسا لگ رہاتھا کہ حضور مدہوش ہیں ۔
آپ حالت سکر میں تھے اور آپ پر مدہوشی کی کیفیت طاری تھی ۔آپ کے دہن مبارک سے کف جاری تھا جیسا کہ دریا جوش مارتا ہوا ساحل پر جھاگ ڈالتا ہے مراقبہ کی حالت میں آپ کی زبان مبارک پر عربی کے یہ اشعار جاری تھے ۔
:جسے القاء ربانی وفیضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہئے ۔ وہ اشعار یہ ہیں

سقانی سیدی کوثر زلا زلا ۔۔۔ عطانی روح جدی لی وصالا
فقال الجد لی ولدی کریم ۔۔۔۔۔ لک الدرجات عند اللہ تعالی *
فلاخوف لک لا الحزن یوما ۔۔۔لک قصر من الفردوس اعلی
سمعت قول جدی فرح قلبی۔۔ ودفع اللہ من قلبی ملا لا

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

CAPTCHA ImageChange Image

Back to top button
Translate »