Site icon Word For Peace

Sufi mystics connected people’s hearts in India! ہندوستان میں لوگوں کے دلوں کو صوفیہ نے جوڑا

Sufi mystics

Word For Peace

عہدوسطی کے بکھرے ہوئے ہندوستان کو ہندوستان بنانے میں اگرکسی ایک شخص کا کردار سب سے زیادہ ہے تو وہ سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین
دہلوی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔ اس ملک کوایک متحدہ و مشترکہ سیاسی و جغرافیائی شناخت بلاشبہ شمس الدین ایلتتمش، غیاث الدین بلبن اور علاء الدین خلجی جیسے بادشاہوں نےدی لیکن لوگوں کے دلوں کو صوفیہ نے جوڑا۔

ٹالسٹائی نے اپنی کتاب ’مذہب کیا ہے؟ ‘ میں برتھولٹ کا ایک قول نقل کیا ہےکہ قرون وسطی میں جن چیزوں نے انسانی فکر کو متأثر کیا وہ دو تھیں؛ طاقت اور مذہب۔ طاقت کا اثرونفوذ محدود تھا، مذہب کا لامحدود۔ طاقت و قوت سے انسان کے جسم کو قابو کیا جاسکتا ہے لیکن اقلیم دل کی فتح ممکن نہیں۔ مذہب کی حکمرانی انسان کے ان بنیادی جذبات پر تھی جہاں اس کی فکرو نظر کے سانچے ڈھلتے تھے اور جہاں اس کی شخصیت کی تعمیر ہوتی تھی۔

عہد وسطی کے مسلم سلاطین اور صوفیۂ اسلام اس حقیقت کا بہت ہی روشن اورزندہ ثبوت ہیں۔ معاصر مؤرخین نےگرچہ ایرانی اساطیری طرزپر تاریخیں لکھیں، سلاطین کے جنگی کارناموں کو شرح و بست کےساتھ بیان کیا، زندگی کے دوسرے شعبوں کا حال اور ان میں خود بادشاہوں کی دلچسپیوں اور کاموں تک کو بہت کم توجہ دی لیکن اس کے باوجود منہاج السراج، ابن بطوطہ اور ضیاء الدین برنی شیخ الاسلام خواجہ فریدالدین گنج شکر اور خواجہ نظام الدین (علیھما الرحمۃ و الرضوان) کے غیر معمولی اثرات کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکےاوران سے وابستہ بعض ناقابل یقین سنسنی خیزحکایات تک تاریخ کاحصہ بن گئیں۔ یہ وہ مشائخ ہیں جنھوں نے سلاطین سے ہمیشہ دوری رکھی۔ درباروں کے طورطریقوں، سلاطین کی سوچ اور اِن کی روش فکروعمل میں زمین و آسمان کا فرق تھا، اس کے باوجود عوام اور امرا یہاں تک کہ مرکز اقتدارتک میں ان کے غیرمعمولی اثرورسوخ کے کیا معنی ہیں اور منہاج السراج جیسے درباری مؤرخ نے کیوں لکھا کہ دہلی کے مسلمانوں پرخواجہ نظام الدین کا اس قدر اثرتھا کہ دنیاوی امور میں بھی ان کے نقطۂ نظر میں ایک ٹھوس عملی تبدیلی آگئی تھی ان باتوں کو عہد وسطی کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کو نگاہوں میں رکھے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔ آپ کو اس کے لیے اس دور کے سلاطین اور علماو فقہا کے مختلف طبقات سے ان کے رشتوں کا سردوگرم بھی جاننا ہوگا، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا محرکات و عوامل تھے کہ یہ اس جانب متوجہ ہوئے، اور یہ بھی کہ یہ ’بے سلاح و سپاہ اقتدار‘ بادشاہوں کی شوکت و جبروت پرکیوںکرغالب آیا؛ ورنہ ان کی قدر و قیمت کاصحیح اندازہ نہیں ہوسکتا۔
احمد جاوید / مجلہ الاحسان-10(سلطان المشائخ نمبر)

Exit mobile version
Skip to toolbar