Religion for PeaceUrdu

Extremism & Exaggeration in Religion: Causes and Remedies دین میں افراط و غلو اسباب و علاج

           افراط و غلوکا لغوی معنی حدِ اعتدال سے تجاوز کرنا ہے_ یعنی کسی چیز کو اس کے منصب و مرتبہ سے بڑھا دینا اور اس کی متعّینہ مقدار و قائم کردہ حد سے باہر کر دینا غلو کہلاتا ہے_ مثلاً سلطان کے محل کی تعریف کرتے کرتے اس کو “بیت المقدس” قرار دے دینا ، علم دین سے بےگانہ شخص کی فلسفیانہ موشگافیوں کو دیکھ کر اسے “غزالیٔ دوراں” کا لقب دے ڈالنا اور کسی عام انصاف پسند شخص کو” فاروق اعظم” کہہ کر بلانا وغیرہ افراط و غلو کے دائرہ میں آتا ہے_
            افراط و غلو کے لغوی معنی میں اگر حدِ شرعی  سے تجاوز  کی قید کا لحاظ کر لیا جائے تو یہی اس لفظ کا اصطلاحی معنیٰ بھی ہے _
          امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں:
       الغلو : فراق الحق_ (١)
       حق چھوڑ دینے کا نام غلو ہے _
       علامہ زین الدین محمد عبد الرؤف مناوی رحمہ اللہ تعالی علیہ (م ١٠٣١ھ) لکھتے ہیں:
        (ايّاكم والغلو في الدين) عام في جميع انواع الغلو في الاعتقادات والاعمال_ والغلو مجاوزةالحد بأن يزاد في مدح الشيء او ذمّه على ما يستحق ونحو ذلك_ والنصارى اكثر غلوا في الاعتقاد والعمل من سائر الطوائف_ (٢)
        حدیث شریف( تم دین میں غلو سے بچو) عقائد و اعمال دونوں میں ہر قسم کے غلو کو شامل ہے_ غلو حد سے تجاوز کرنے کا نام ہے، جیسے کسی کی تعریف یا مذمت میں قرار واقعی حد سے آگے بڑھ جانا غلو ہے _عقائد و اعمال میں سب سے زیادہ غلو نصری کرتے ہیں _
        اسلام کا پورا نظام اعتدال و میانہ روی کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے، افراط و تفریط تشددوغلو اور تکلف و تصنع کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے_ عقائد و نظریات، عبادات و معمولات ،اخلاق و عادات اور تعلقات و معاملات کے ہر شعبے میں انتہا پسندی، زیادتی، بے اعتدالی اور حد سے تجاوز کرنے کو معیوب وممنوع قرار دیا گیا ہے_ زندگی و بندگی کا جو شعبہ افراط و تفریط اور تشدد و غلو کا شکار ہوتا ہے اس کی حقیقت و ہیئت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے اور اس کی صورت و حالت اور روح و اصل میں ایسی عجیب و غریب تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں کہ اسم ورسم کے سوا سب کچھ رخصت ہو چکا ہوتا ہے ،ظاہر میں نظر آنے والا خوبصورت وپرکشش عنوان اپنے ہزار بانکپن و طرح داری کے باوجود جس پس منظر کی ترجمانی کرتا ہے وہ انتہائی پیچیدہ بن جاتا ہے، جہاں محاسن و معائب اور خیر و شر میں امتیاز دشوار ہو جاتا ہے اور افراط و غلو سے ناآشنا  انسان کے لئے تو صورت حال مزید سنگین ہو جاتی ہے اور اس کے سامنے مسائل کا پہاڑ کھڑا ہو جاتا ہے_
           انسانی اور اسلامی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ہر بداعتقادی، فکری کج روی اور نظریاتی بے رہروی کے پس پردہ جہاں دیگر عوامل ومحرکات رہے ہیں وہاں تشدد وغلو نمایاں سبب رہا ہے _اور افراط و غلو کا سب سے خطرناک ومنفی اثر عقائد و نظریات میں دیکھنے کو ملتا ہے ،جس کے نتیجے میں انسان کبھی تثلیث کی تاریکی میں گم ہوجاتا ہے، کبھی حلول و اتحاد کے دلدل میں پھنس جاتا ہے،کبھی رفض وخروج کی آلودگیوں میں پہنچ جاتا ہے،کبھی الحاد و زندیقیت میں مبتلا ہوجاتا ہے اورکبھی بدعات و منکرات کی وادیوں میں بھٹکتاپھرتا ہے ،اسی لئے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں افراط و تعدی اور انتہاپسندی سے اجتناب و گریز کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور ہر کام میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرنے پر بار بار زور دیا گیا ہے۔
           مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ دین میں جس طرح افراط و غلو،تکلف و تصنع  ممنوع اور ناجائز ہے اسی طرح تفریط و تقصیر، کسی چیز کو اسکی حیثیت اورمقام ومرتبہ سےگھٹا دینا اور اس میں ایسی کمی اور کوتاہی کرنا جس سے اس کی توہین لازم آتی ہو غلط اور شرعی تقاضوں کے خلاف ہے  _ انجام کے اعتبار سے دونوں پہلو اسلامی تعلیمات کے منافی اور کتاب و سنت کے معتدل ومستقیم منہج سے متصادم ہیں _
       غلو کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات 
 
         اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے :
         {يا ايها الذين امنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم ولا تعتدوا ان الله لا يحب المعتدين ٠ وكلوا مما رزقكم الله حلالا طيبا واتقوا الله الذي انتم به مؤمنون } (٣)
 
        اے ایمان والو ! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو بیشک حد سے بڑھنے والے اللہ کو ناپسند ہیں، اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی  حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ سے جس پر تمہیں  ایمان ہے _
       سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
 
       أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إني إذا أصبت اللحم انتشرت للنساء واخذتني شهوتي فحرمت علي اللحم فانزل الله {يا ايها الذين امنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم ولا تعتدوا ان الله لا يحب المعتدين وكلوا مما رزقكم الله حلالا طيبا } (٤)
 
         ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں جب گوشت کھاتا ہوں تو نفسانی شہوت کا غلبہ ہو جاتا ہے ؛ لہذا میں نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا ہے، جس پر یہ آیات نازل ہوئیں: { اے ایمان والو !حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو بیشک حد سے بڑھنے والے اللہ کو ناپسند ہیں اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی حلال پاکیزہ}
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمۃ اللہ تعالی علیہ (٣١٠ھ)فرماتے ہیں :
 
      وهذا بيان من الله تعالى، ذكره للذين حرموا على انفسهم النساء ،والنوم، واللحم، من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم تشبها  منهم بالقسيسين والرهبان، فانزل الله فيهم على نبيه صلى الله عليه وسلم كتابه ينهاهم عن ذلك، فقال:{ يا ايها الذين امنوا لا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم } فنهاهم بذلك ان تحريم ما احل الله لهم من الطيبات_  ثم قال : و لا تعتدوا أيضا في حد ودى،فتحلوا ما حرمت عليكم،فان ذالك لكم   غير جائز كما غير جائز لكم تحريم ما حللت ،واني لا أحب المعتدين ٠(٥)
 
      وہ صحابہ کرام  رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جنہوں نے پادریوں اور راہبوں سے مشابہت کی وجہ سے خود پر شادی، نیند اور گوشت کو حرام کر لیا تھا ، اللہ تعالی نے ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی : ( اے ایمان والو !حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کیں) ، لہذا آپ ﷺ  نے انہیں اللہ تعالی کی حلال کردہ پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار دینے سے روک دیا، پھر ارشاد فرمایا:  میری حدود سے بھی تجاوز مت کرو کہ میں نے جسے حرام کیا ہے اس کو حلال قرار دینے لگو ؛ کیونکہ یہ اسی طرح ناجائز ہے جیسے میری حلال کی ہوئی چیز کو حرام کرنا ناجائز ہے،  اور میں حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہوں_
      قارئین کرام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے خود کو دین واشاعت دین کے  لئے وقف کر دیا تھا، جب ان پیکرِ اخلاص نفوسِ قدسیہ کو غلو سے روک دیا گیا تو کوئی اور کیا ؟
        لہذا قرآن کریم نے دوسرے کئ مقامات پر بھی اللہ رب العزت کی قائم کردہ حدوں سے آگے بڑھنے والوں کے لیے سخت وعید کا اعلان کیا ہے _
     { ومن يتعد حدود الله فاولئك هم الظالمون } (٦) 
    اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں_
 
          {ومن يعص الله ورسوله ويتعد حدوده يدخله نارا خالدا فيها وله عذاب مهين } (٧)
       اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی کل حدوں سے بڑھ جائے اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے خواری کا عذاب ہے _
    غلو کے سلسلے میں احادیث مبارکہ
 
       اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو دین کے ہر شعبے میں افراط و غلو سے منع فرمایا اور ہمیشہ اس بات کی تعلیم و تلقین فرمائی کہ اسلام اعتدال و توازن اور نرمی و آسانی کے حسین وزرین اصول پر قائم دین ہے_  چند احادیث  مبارکہ ذیل میں پیش کی جارہی ہیں جن سے یہ بات بخوبی ظاہر ہے_
      حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں
      قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: غداة العقبة وهو على راحلته :هات القط لى،فلقطت له حصيات هن حصي الخذف، فلما وضعتهن في يده قال: بأمثال هؤلاء, و اياكم والغلو في الدين فانما اهلك من كان قبلكم الغلو في الدين _ (٨)
 
       رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عقبہ کی صبح جب آپ اپنی سواری پر تھے ارشاد فرمایا: میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ، میں نے ٹھیکری نما کنکریاں چن دیں ،جب میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں رکھا تو ارشاد فرمایا: اسی طرح (کی کنکریاں ہونا چاہیے) تم دین میں غلو کرنے سے بچو ،کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں زیادتی ہی نے ہلاک و برباد کر دیا _
    علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ تعالی علیہ اس حدیث شریف کی شرح میں فرماتے ہیں :
 
   ( اياكم والغلو في الدين) اي التشديد فيه ومجاوزةالحد والبحث عن غوامض الاشياء، والكشف عن عللها ،وغوامض متعبداتها ( فانما هلك من كان قبلكم) من الامم( بالغلوفي الدين) والسعيد من اتعظ بغيره (٩)
 
 
        دین میں غلو کرنے سے بچنے کا معنی یہ ہےکہ دین میں بے جا سختی کرنے، حد سے گزرنے، چیزوں کی گہرائیوں میں اتر نے، ان کے اسباب و علل کی تلاش کرنے اور شرعیات و عبادات کی باریکیوں کا پتہ لگانے سے بچو ؛کیونکہ تم سے پہلی امتیں دین میں زیادتی کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئی ہیں، اور  سعادت مندانسان وہ ہے جو دوسروں کے حالات سے عبرت حاصل کرے _
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
 
          ان الدين يسر ،ولن يشاد الدين أحد الا غلبه، فسددوا وقاربوا   وابشروا ،واستعينوا بالغدوةوالروحة وشيء من الدلجة (١٠) 
 
 
        بے شک دین آسان ہے ،جو بھی دین میں سختی کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا، سیدھی راہ چلو میانہ روی اختیار کرو اور خوشخبری سناؤ اور صبح و شام اور رات کے کچھ آخری حصہ میں سفر کرکے مدد حاصل کرو _
     اس حدیث کی شرح میں امام ابو الفضل شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (م٨٥٢ھ)فرماتے ہیں :
 
         لا يتعمق احد في الاعمال الدينيه ويترك الرفق الا عجز وانقطع فيغلب ٠(١١)
 
 
        کوئی شخص نرمی و آسانی چھوڑ کر دینی اعمال کی گہرائیوں میں نہ جائے ورنہ وہ تھک ہار کر مغلوب ہوجائے گا _
     سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
 
            قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : هلك  المتنطعون ،قالها ثلاث٠ (١٢)
         رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: غلو کرنے والے ہلاک ہوگئے یہ تین بار فرمایا _
         اس حدیث شریف کی شرح میں  امام محی السنہ، ابو ذکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ(م٦٧٦ھ) فرماتے ہیں :
 
      المتعمقون الغالون المجاوزون الحدود في اقوالهم وافعالهم ٠(١٣)
 
     متنطعین  سے مراد وہ باریک بین غلو پسند لوگ ہیں جو اپنے  اقوال و افعال میں حد سے تجاوز کرتے ہیں_
      حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
 
     ان هذا الدين متين ، فأوغل فيه برفق ،ولا تبغض الى نفسك عباده الله ،فان المنبت لا أرضاً قطع ولا ظهرا أبقي ٠(١٤)
 
      ‌‌بے شک یہ دین مضبوط ہے، اس کی باریکیوں میں نرمی کے ساتھ جاؤ اور اللہ تعالی کی عبادت کو اپنے نفس کے لیے ناپسندیدہ نہ بناؤ ، کیونکہ حد سے آگے نکل جانے والا قافلے سے بچھڑ جاتا ہے اور منزل پر پہنچنے سے محروم رہ جاتا ہے _
      حضرت عبدالرحمن بن شبل انصاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
 
      إقرأوا القران، ولا تغلوا فيه، ولا تجفوا عنه ،ولا تاكلوا به ،ولا تستكثروا به ٠(١٥)
 
       قرآن کی تلاوت کرو اور اس میں حد سے تجاوز نہ کرو، نہ اس کی تلاوت سے بھاگو اور نہ اس کو کھانے کا ذریعہ بناؤ اور نہ کثرت مال کا
      اس کی شرح میں علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :
      قوله: لا تغلوا من الغلو بالغين المعجمة وهو التشدد والمجاوزة عن الحد ٠ قوله: ولا تجفوا أي تعاهدوه ولا تبعدوا عن تلاوته وهو من الجفاء وهو البعد عن الشيء ٠ قوله : ولا تأكلوا به أي بمقابلة القران ،أراد لا تجعلوا له  عوضاً من سحت الدنيا ٠(١٦)
 
       غلو:  تشدد اور حد سے تجاوز کو کہتے ہیں ،اور جفا کا معنی ہے کسی چیز سے دور ہونا ،مطلب یہ ہوا کہ قرآن کریم میں حد سے تجاوز نہ کرو (نہ حروف و کلمات کی ادائیگی میں اور نہ معنی و مفہوم میں )، اس کی تلاوت کا پورا خیال رکھو، اس سے روگردانی نہ کرو اور نہ دنیا کے مال و دولت کو قرآن مجید کا بدلہ ٹھہرا کر اسے کھانے پینے کا ذریعہ بناؤ _
        مذکورہ بالا  آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ دین کے کسی شعبے میں حد سے تجاوز یا حد سے کمی نہ کرو، کیونکہ اس کے نتائج انتہائی تباہ کن اور سخت نقصان دہ ہوتے ہیں_ گزشتہ امتوں کی تباہی و بربادی کا ایک اہم سبب یہی ہے_ اور تمام تر اسلامی تعلیمات کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ اسلام دین فطرت اور انسان کی طبیعت سے ہم آہنگ ہے اس کی تعلیمات  ہر طرح کی پیچیدگی اور گھماؤ پھراو سے پاک ہے، اس کا نظامِ علم و عمل انتہائی روشن و شفاف ہے_
         لہذا دین میں افراط و غلو تفریط و تقصیرسے پرہیز نہ کرنا اسلامی اصول و قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے_
       »»»  افراط و تفریط کی بہتات اور اس کے چند نمایاں اسباب «««
 
   افراط و غلو اور تفریط وتقصیر کی بہت سی صورتیں اور مختلف شکلیں ہیں، عقائد و عبادات،  احکام ومسائل، تعلقات و معاملات،  اور اخلاق و عادات و غیرہ میں سے شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جہاں ہوا پرست اور بدعات پسند افراد نے شیطان و نفس کے فریب و مکر میں مبتلاہوکر حد سے زیادتی یا حد سے کمی نہ کی ہو،ستم بالائے ستم  یہ ہے کہ دین میں زیادتی یا کوتاہی کا یہ کھیل دین کے نام پر کھیلا گیا ہے، جس کا خوفناک نتیجہ اور المناک اثر یہ ہے کہ حقیقت سے ناآشنا سادہ لوح افراد نے ان زیادتیوں یا کوتاہیوں کو دین اور خاص حکم شریعت سمجھ کر قبول کر رکھا ہے،اور ان سے تعلق و وابستگی کا حال یہ ہے کہ اب اگر کوئی شخص قرآن وسنت کی پاکیزہ و پر نور تعلیمات کو ان کی اصل شکل و صورت میں پیش کرنے کی جرأت و جسارت کرتا ہے تو کئی حلقوں سے اس پر جرم و بغاوت کا الزام عائد کیا جاتا ہے،فتنہ  برپا کرنے والا بتا کر اس کے خلاف زبان درازی کی جاتی ہے، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے  والی بات کے مطابق مفسدین مصلحین پر، مجرمین بے گناہوں پر، اور باطل نواز حق پسندوں پر تہذیب و شرافت کو بالائے طاق رکھ کر بہتانات والزامات کی یورش وبارش کرنے میں لگ جاتے ہیں _ اسلامی تاریخ کے تناظر میں افراط وتفریط کی اس بھیانک بیماری کے اسباب و عوامل کی اگر گہرائی سے تلاش و جستجوکی جائے اور ان پر شرح و بسط کے ساتھ لکھاجائے تو ایک مبسوط کتاب تیار ہو سکتی ہے لیکن یہاں پر ہمارا مقصد ان تمام تاریخی اسباب و عوامل کا احاطہ کرنا نہیں ہے جو بلاشبہ تاریخ کا ایک سیاہ باب اور انتہائی بد نما داغ ہیں_  بلکہ محض چند اسباب و عوامل کواجمالی طور پر بیان کر کے اپنے قارئین و ناظرین کو اس پہلو پر فکر و نظر کی دعوت دینا ہے کہ عصبیت و جانبداری کی سطح سے اوپر اٹھ کر دل میں محاسبہ آخرت کا خوف پیدا کیجئے اور اسلامی تعلیمات و شرعی اصول و قوانین میں افراط و تفریط کی بیماری کا جو علاج بتایا گیا ہے اس کو اختیار فرما کر اپنی دینی واسلامی زندگی کو صحت مند اور درست بنا لیجئے _
                    »»»»    اسباب   ««««
 
 (١)۔    علوم دینیہ سے ناواقفیت و محرومی اور خواہش نفس کی اتباع وپیروی _
       دین میں غلو کا ایک اہم سبب علم دین سے غفلت اور خواہشات نفس کی پیروی کرنا ہے ،اللہ رب العزت نے قرآن  کریم میں کئی مقامات پر  خواہش نفس کی پیروی کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی ہے  _
     ومن اضل ممن اتبع هواه بغير هدى من الله ان الله لا يهدي القوم الظالمين (١٧)
      اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو اللہ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش نفس کی پیروی کرے ، بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا   _
(٢)۔   علم دین کو غیرشرعی اہداف اور دنیاوی اغراض و مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لینا _
     جب علم دین کا مقصود رضائے الہی نہ ہو تو دین میں زیادتی یا کمی کرنا نفس کے لیے آسان ہو جاتا ہے، اور اس کا مطمحِ نظر کسب مال ،جھوٹی عزت و شہرت اور تکبر اور نخوت بن کر رہ جاتا ہے، ایسے لوگوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
     من طلب العلم ليماري به السفهاء، او ليبا هي به العلماء ،او ليصرف وجوه الناس اليه فهو في النار ٠ (١٨)
 
            جس نے علم دین اس لیے حاصل کیا تاکہ بے وقوفوں پر بڑائی جتا ۓ، یا علماء کے درمیان فخر و مباہات کرے ، یا لوگوں کی توجہات اپنی طرف مبذول کرے ایسا شخص جہنم میں ہے_
 
(٣)۔  عصبیت و جانبداری پر مبنی رجحانات و خیالات کا فروغ _ 
 
 (٤)۔   علمائے ربانین و مخلصین کی صحبت سے اجتناب و گریز _ 
 
(٥)۔   اسلامی و مذہبی شخصیات و عبقریات کے ساتھ تعلق و عقیدت میں شرعی حدود کی رعایت و پاسداری نہ کرنا_
                        
 
                       علاج
افراط و تفریط کے اسباب واضح ہو جانے کے بعد اس کا علاج خود بخود سامنے آ جاتا ہے_
(١)۔     آدمی پوری مضبوطی کے ساتھ اللہ تعالی کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر قائم رہنے اور دوسروں کو بھی قائم رکھنے کا اہتمام و التزم کرے _ 
 
(٢)۔    جس چیز کی جو حد کتاب و سنت میں قائم کردی گئی ہے اس میں نہ کوئی زیادتی کرے نہ کوئی کمی کرے _
 
(٣)۔   جس کا جو مرتبہ شریعت میں متعین کر دیا گیا ہے اس سے اس کا مرتبہ نہ اونچا کرنے کی کوشش کرے نہ نیچا کرنے کی_
 
(٤)۔    جو چیز دین میں جتنی مقدار میں مطلوب ہے اس میں محض اپنے جی سے نہ کوئی اضافہ کرے نہ کوئی تخفیف _
 
(٥)۔    اپنی خواہشوں میں سے کسی خواھش کو شریعت کا جامہ پہنانے کی کوشش نہ کرے،  نہ ہی اپنےمن گھڑت نظریات کو دین میں گھسائے اور نہ ہی اپنے ذاتی میلانات و رجحانات کو قرآن وحدیث کے نام سے پیش کرنے کا خواہشمند بنے _
 
     غلو کے علاج کی یہ صورتیں جس آسانی کے ساتھ تحریر کردی گئی ہیں ان پر عمل کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے کئ صبر آزما مراحل سے گزرنا ہوگا ، اس کی خاطر کئ  قربانیاں دینا ہونگی اور اس سلسلے میں بعض نااہلوں کی جانب سے لعن طعن کا ہدف و شکار بھی بننا پڑے گا، کیونکہ   اس زمانے میں حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ شریعت نے جن چیزوں کو معروف اور بھلائی بتایا ہے انہیں دین سے بے گانہ افراد نے منکر و برائی قرار دے رکھا ہے_ اور جن چیزوں کو منکرات و بدعات سئیہ قرار دیا ہے جاہلوں نے انہیں شعارِ دین اور اسلام کا بنیادی حکم بنا رکھا ہے_ اور غالبا یہ اسلامی تاریخ کا سب سے افسوسناک المیہ ہے  کہ کئ ذمہ دار کہے جانے والے بےتوفیق مسندنشینوں کے کردار و عمل سے یہ ظاہر ہے کہ انہیں اسلام کی بالادستی اور مسلمانوں کی شوکت ایک آنکھ نہیں بھاتی _ جب دیکھئے تو نفرت و عداوت اور انتشار و اختلاف کے تیر کسی نہ کسی شخصیت یا کسی جماعت کو لہولہان کرنے کے لئے پوری قوت سے چلائے جا رہے ہیں جب جی میں آتا ہے تو کسی بھی شخصیت کی بساط لپیٹ کر اس کو “دین بدری” اور “جلا جماعتی” کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے_   ممبر و محراب سے ایسے بیانات دیے جاتے ہیں کہ سامنے والوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں _ اتفاق و اتحاد اور محبت و اخوت نام کی کوئی چیز دور دور تک نظر نہیں آتی_ بلکہ رعونت و کبریائی کا حال یہ ہے کہ کسی کو صفائی دینے تک کا موقع بھی فراہم نہیں کیا جاتا اور کفر و ارتداد کے احکام صادر کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے میدان میں کود پڑتے ہیں_
         باتیں بہت ہیں ؛ کیونکہ ہوا پرستوں کے نشانے پر پورا اسلامی تشخص ہے جس کو چھلنی کرنے کے لئے سب کچھ کیا جا رہا ہے_ دینیات و اسلامیات اور مسلمہ عقائد ومعمولات کی انوکھی تشریح اور ان کی تطبیق وتنفیذ کی نرالی منطق نے دین حنیف کی اصل شکل کو ہی بدل ڈالا ہے_
       اس فسادِ حال کے سبب سے اگر کوئی شخص صحیح سنت پر قائم رہنا چاہے تو وہ معاشرے اور سوسائٹی میں بالکل مطعون و موردِ ملامت بن کے رہ جائے گا، اس کا مذاق اڑایا جائے گا ہر مجلس میں وہ خود بھی اپنے آپ کو اجنبی اور بےگانہ محسوس کرے گا اور دوسرے بھی،  اور اگر اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اصلاح کی بھی کوشش کرے گا تو یہ بےگانگی فوراً اختلاف اور کشمکش کی صورت اختیار کر لے گی، پھر ہر جگہ اس کے خلاف ایک محاذ جنگ قائم ہو جائےگا یگانے اور بےگانے دونوں ہی اس سے الجھتےاور لڑتے جھگڑتے نظر آئیں گے، عزیز اور دوست دشمن بن جائیں گے اور صرف وہی لوگ اس کے ساتھ رہ جائیں گے جو یا تو پہلے سے اس کے ہم خیال وہم نظر ہوں یا اس کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر اس سے ہم آہنگ بن چکے ہوں_ اس صورت حال کا مقابلہ کرنا معمولی عزم و ہمت کے آدمی کا کام نہیں ہے یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جو دوسروں کی ناراضگیاں مول لے سکتے ہوں جو حق کے لیے رشتوں اور قرابت داروں سے بے پرواہ ہونے کی سکت بھی رکھتے ہوں جو اللہ کے لیے ہر طرح کا نقصان گوارا کر سکتے ہوں_
            الحمد للہ اس راہ میں آدمی کو سب سے زیادہ قیمتی رہنمائی حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور صحابہ عظام و اسلاف امت رضی اللہ تعالی عنہم کی زندگیوں کے عملی نمونوں سے ملتی ہے، اگر آدمی امام الانبیاء ، سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے حالات  کا برابر مطالعہ کرتا رہے تو دین میں افراط و غلو کی سازشوں سے لڑنے کے لئے اس کے اندر حرارت برابر قائم رہے گی، اور صراط مستقیم پر چلنے کا حوصلہ شکست و ریخت سے محفوظ رہے گا ، اس امت میں سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہتمام اور بدعات کی مخالفت کے پہلو سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے بعد  ان ائمہ و  مجددین اسلام کی سیرت ہے جنہوں نے مختلف ادوار میں احیائے سنت اور تجدید دین کے ایسے زرین کارنامے انجام دیے ہیں جن کے مطالعہ سے دل میں بلا خوف وخطر اتباع سنت کا جذبہ موجزن ہو جاتا ہے  _
            اللہ رب العزت تمام مسلمانوں کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کی سنت کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے اور دین میں افراط و غلو  سے محفوظ فرمائے _
                 حواشی و حواله جات
(١)    ( التفسير لابن ابي حاتم الرازي  ٤/١١٢٢ ، الرقم: ٦٣٠٤ ،المكتبه العصرية،صيدا)
(٢)   (فيض القدير شرح الجامع الصغير  ٣/١٦٢ ،دار الكتب العلميه ، بيروت )
(٣)   (سوره المائده،آيات: ٨٨,٨٧)
(٤)    (جامع الترمذي ٥/٢٥٥ ،رقم الحديث: ٣٠٥٤ ،دار أحياء التراث العربي،بيروت_
والمعجم الكبير الطبراني ١٠/٤٤ ،رقم الحديث:١١٨١٢ ، دار الحرمين ، القاهره  _
و جامع البيان لابن جرير الطبري  ٨/٦١٣ ،رقم الحديث: ١٢٤٠٣ ،دار هجر ،مصر_
والتفسير لابن ابي حاتم الرازي  ٤/١١٨٦ ،رقم الحديث :٦٦٨٧)
(٥)    (جامع البيان ٨/٦٥٥)
(٦)    (سوره البقره،آية:٢٢٩)
(٧)    (سوره النساء ،آية : ١٤)
(٨)     (السنن للنسائي ٥/٢٦٨ ،رقم الحديث: ٣٠٥٧ ،المطبوعات الاسلاميه_
والسنن لابن  ماجه ٢/١٠٠٨ ،رقم الحديث: ٣٠٢٩ ،دارالفكر ،بيروت_
ومسند احمد بن حنبل ١/٢١٥ ،رقم الحديث: ١٨٥١ ،مؤسسة قرطبة،القاهرة_
وصحيح إبن خزيمة ٤/٢٧٤ ،رقم الحديث: ٢٨٦٧ ،المكتب الاسلامي، بيروت_
وصحيح إبن حبان ٩/١٨٣ ،رقم الحديث: ٣٨٧١ ، مؤسسة الرسالة، بيروت_
ومسند أبي يعلى ٤/٣١٦ ،رقم الحديث: ٢٤٢٧ ،دارالمأمون للتراث،دمشق_
والسنن الكبرى للبيهقي ٥/١٢٧ ،رقم الحديث: ٩٨٠٦ ،دائرة المعارف النظامية، حيدر آباد_
والمستدرك على الصحيحين للحاكم ١/٦٣٧ ،رقم الحديث: ١٧١١ ، دار الكتب العلميه_
والمعجم الكبير للطبراني ١٠/٣٠١ ،رقم الحديث: ١٢٥٧٩ ، دار الكتب العلميه)
(٩)    (فيض القدير شرح الجامع الصغير ٣/١٦٢)
(١٠)    ( البخاري ١/٢٩ ،رقم الحديث: ٣٩ ، والسنن للنسائي ٨/١٢١ ، رقم الحديث: ٥٠٣٤ ، وصحيح إبن حبان ٢/٦٣ ، رقم الحديث: ٣٥١ )
(١١)    (فتح الباري ١/١٧٥ ، دار طيبه، الرياض)
(١٢)    ( صحيح مسلم ٨/٨٥ ،رقم الحديث: ٦
٩٥٥ ،دارالجبل ،بيروت _
والسنن لأبي داؤد ٤/٣٣٠ ،رقم الحديث: ٤٦١٠ ، _ ومسند احمد بن حنبل ١/٣٨٦ ، رقم الحديث: ٣٦٥٥ _ ومسند أبي يعلى ٨/٤٢٢ ، رقم الحديث: ٥٠٠٤ _
والمعجم الكبير ٩/١٩ ، رقم الحديث: ١٠٢١٧ _
ومسند البزار ٥/٢٦٤ ، رقم الحديث: ١٨٧٨ ، مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة)
(١٣)     ( المنهاج شرح مسلم ١٦/٢٢٠ ،المطبعة المصرية، الازهر الشريف)
(١٤)     (السنن الكبرى للبيهقي ٣/١٨ ، رقم الحديث: ٤٩٣١ _
ومعجم إبن الأعرابي ٤/٣٤٣ ، رقم الحديث: ١٨٣٥ _
ومسند الشهاب القضاعي ٢/١٨٤ ،رقم الحديث: ١١٤٧ _)
(١٥)     (مسند احمد بن حنبل ٢٤/٢٨٨ ،رقم الحديث: ١٥٥٢٩ ، مؤسسة الرسالة،بيروت_
ومسند البزار ٣/٢٥٣ ، رقم الحديث: ١٠٤٤ ، مكتبة العلوم والحكم_
والمعجم الأوسط للطبراني ٨/٣٤٤ ، رقم الحديث: ٨٨٢٣ ، دار الحرمين، القاهره_
وشرح معاني الآثار للطحاوي ٣/١٨ ، رقم الحديث: ٤٢٩٦ ، عالم الكتب، بيروت_
 ومسند أبي يعلى ٣/٨٨ ، رقم الحديث: ١٥١٨ ، داز المأمون للتراث، بيروت _
ومصنف عبدالرزاق ١٠/٣٨٧ ، رقم الحديث: ١٩٤٤٤، المكتب الاسلامي ، بيروت _
ومصنف ابن أبي شيبة ٢/٤٠٠ ، رقم الحديث: ٧٨٢٥ ، دار القبلة،مكة المكرمة_
 والسنن الكبرى للبيهقي ٢/١٧ ، رقم الحديث: ٢٣٦٢ ، دائرة المعارف النظامية،حيدرآباد_
وشعب الايمان ٤/١٩٤ ، رقم الحديث: ٢٣٨٣ ، مكتبة الرشد، الرياض_)
(١٦)     ( عمدة القاري ٢١/٣٩٣ ، دار الكتب العلميه، بيروت_)
(١٧)     (سوره القصص،آية : ٥٠ )
(١٨)     ( السنن لابن ماجه ١/٩٣ ، رقم الحديث: ٢٥٣ _
ومسند البزار ١٣/٤٨٧ ، رقم الحديث: ٧٢٩٥ _
ومعرفة الصحابة لأبي نعيم ٢/٤٢٧ ، رقم الحديث: ٧٧٨ _)
 
           (ماخوذ از المعتقد المرصوص والعمل المنصوص)
 
      محمد فرمان برکاتی ،اترپردیش انڈیا
Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »