Religion for PeaceSpirituality for PeaceUrdu

Muslims Need to ‘Convert’ to Islam, not Hindus، ہندووں کو نہیں مسلمانوں کو اسلام کی ضرورت

WORD FOR PEACE

گزشتہ کچھ برسوں سے سنگھ پریوارکی جانب سے ایک منظم سازش چل رہی ہےکہ ہندووں کو مسلمانوں سے ڈرایا جائے۔ کبھی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا جھوٹ پھیلا کر تو کبھی زمینوں پر قبضہ کرنے کا جہاد چلانے کا جھوٹ پھیلا کر، کبھی لو جہاد کی من گڑھنت کہانیاں سنا کر اور کبھی سرکاری نوکریوں میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے والے مسلم نوجوانوں کی کامیابی کو ’نوکر شاہی جہاد ‘ کا نام دے کر ہندووں کو تشویش میں مبتلا کیا جائے ۔اس پورے پروپیگنڈے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ہندووں کو بتایا جائے کہ تم سب غیر محفوظ ہو اور تمہاری حفاظت صرف سنگھ پریوار کے لوگ کر سکتے ہیں۔اسی ماحول میں اچانک جبری طور پر تبدیلیٔ مذہب کی کہانیاں سنائی دینے لگیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ جبری طور پر ہندوئوں کو مسلمان بنانے کی ایک مہم چل رہی تھی جس کی فنڈنگ بیرونی ممالک سے ہو رہی تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی شخص نے اس بات کی شکایت نہیں کی تھی کہ اس کو جبری طور پر اسلام قبول کروایا گیا۔ خود یو پی کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس ریکٹ کا راز اس وقت فاش ہوا جب ڈاسنا کے مندر کے مہنت نرسنگھا نند کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے دو لڑکوں کو پکڑا گیا ۔ ان میں سے ایک مسلمان تھا اور دوسرا ایساہندو تھا جس نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ ان ہی دونوں سے ہونے والی پوچھ گچھ کے بعد پولیس نے دو مسلم مبلغوں کو گرفتار کیا ۔ دونوںگرفتار شدگان میں سے ایک مبلغ ایسا ہے جو پہلے ہندو تھا مگر اسلام قبول کرکے اسلام کی تبلیغ کرنے میں لگ گیا۔جبری مذہب تبدیل کروائے جانے کی کوئی رپورٹ درج نہ ہونے کے باوجود گودی میڈیا میں خوب خوب کہانیاں بیان کی جا رہی ہیں اور عدالت کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی ٹی وی کے وکیل ، گواہ ،مدعی اور منصف اپنے فیصلے سنانے لگ گئے ہیں اور سب یہی کہانی بیان کر رہے ہیں کہ ہندوئوں کے دھرم پریورتن (تبدیلیٔ مذہب) کی ایک سازش چل رہی ہے جس کو بیرونی ممالک سے پیسہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ صرف ہندوستان میں رہنے والے ہندوئوں کو ہی یہ کیوں سمجھایا جا رہا ہے کہ تم کو طرح طرح کے خطرے ہیں مسلمانوں کی طرف سے۔ ملیشیا، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، قطر اور بنگلہ دیش جیسے مسلم اکثریتی ملکوں میں ہندوئوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ کیوں وہاں کے ہندوئوں کو نہیں لگتا کہ وہ مسلم اکثریت کے درمیان غیر محفوظ ہیں؟ کیوں ۸۰؍ کروڑ ہندوئوں کو ۲۰؍ کروڑ مسلمانوں سے ڈرانے کی کوشش صرف انڈیا میں ہو رہی ہے؟ کیا یہ بات کسی کے حلق سے نیچے اترے گی کہ جب یہاں مملوک ، لودھی، تغلق، سوری اور مغل حکمراں رہے تب بھی ہندو ازم پوری طرح محفوظ رہا اور آج اقتدار ہاتھ میں نہ ہونے کے بعد یہاں کے مسلمان ہندوئوں کے لئے خطرہ بن گئے ہیں؟ کیا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور حکومت میں کہیں پر بھی ہندوئوں کا قتل عام ہوا ؟ کیا ایودھیا، کاشی ، متھرا ، ہری دوار، تروپتی سے لے کر بھونیشور جیسے کسی مقدس شہر کو تاراج گیا گیا۔ کیا چار وں دھام میں سے کسی ایک دھام کو بھی نقصان پہنچایا گیا؟ کیا سیکڑوں برس پرانے مندر ان تمام شہروں میں باقی نہیں ہیں؟ کیا مغلوں کی فوج میں ہندو جنرل اور سپاہی اور مہارانہ پرتاپ اور شیواجی کے ساتھ مسلم سردار اور فوجی نہیں تھے؟ سارا خطرہ اس وقت سے ہی کیوں دکھایا جا رہا ہے جب سے مرکزی سرکار پر بی جے پی کا قبضہ ہوا ہے؟ اصل معاملہ یہ ہے کہ نفرت کی زبان بولنے والے کچھ سیاسی سنیاسی اور کٹر سیاستداں یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ کسی دوسرے مذہب کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے اپنے مذہب کو اونچا بنا لیں گے۔مگر ان بیچاروں کو نہیں معلوم کہ دوسرے کو گند ہ کہنے سے خود کو پاک صاف ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں میرا یہ کہنا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو اپنی آبادی بڑھانے کی فکر کرنے کے بجائے اپنے کردار کو سنوارنا چاہئے۔بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ دوسروں کو مشرف بہ اسلام ہونے کی دعوت دینے کے بجائےیہ دیکھیں کہ ان کا معاشرہ اسلامی ہے یا نہیں ؟ کیا خود مسلمان بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں؟کیا ہم ذات پات کے تعصب میں نہیں پھنسے ہیں؟ کیا خواتین کے ساتھ ہمارا سلوک دوسرے مذہب والوں جیسا نہیں ہے؟کیا مسلمانوں میں چوری ،بے ایمانی، فریب دہی اور غنڈہ گردی کرنے والوں کی کوئی کمی ہے؟ کیا مسجدوں، امام باڑوں، درگاہوں اور قبرستانوں کی آراضی کو بیچنے والے مسلمان نہیں ہیں؟کیا دہشت گرد اسلام کی بدنامی کا باعث نہیں ہیں؟کیا یہ افسوسناک نہیں ہے کہ دس لوگ نقلی دوائیں بیچتے پکڑے گئے ان میں سے آٹھ مسلمان تھے؟ کیا دہلی کی ایک مسجد میں ایک امام کے ہاتھوں ایک نابالغ لڑکی کی آبرو لوٹے جانےکا واقعہ ہمارے سماج کی بدترین مثال نہیں ہے؟ کیا ہمارا سماج دوسری اقوام سے ذرابھی مختلف نظر آتا ہے؟ ان حالات میں آپ جو بھی سوچیںمگر میرا خیال ہے کہ آج مسلمانوں کو زیادہ تعداد کی نہیں صالح افراد کی ضرورت ہے۔

25جون،2021 ،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »